ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ، شبیراحمد شگری
ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ، شبیراحمد شگری
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باضابطہ طور پر ایران پر میزائل سے متعلق پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ایران کے میزائل تجربات، میزائلوں کی درآمدات اور برآمدات پربھی پابندیاں ختم ہوگئیں اور اب اس حوالے سے کسی بھی ملک کو ایران کے اثاثے روکنے یا مالی لین دین پر پابندی عائد کرنے کا حق حاصل نہی ہوگا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے باضابطہ طور پر ایران کے میزائل پروگرام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سیکریٹریٹ نے رکن ممالک کو ایک نوٹ بھیجا ہے جس میں بشمول میزائل تجربات کے لئے ایران کو پارٹس کی برآمد اور درآمد نیز سلامتی کونسل کی پابندیوں کے تحت ایرانی افراد اور اداروں کو املاک ضبط کرنے اور مالی خدمات فراہم کرنے سے متعلق پابندیوں کو باضابطہ طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ ان پابندیوں میں بیلسٹک میزائل سے متعلق سرگرمیوں اور منتقلی پر پابندیاں شامل ہیں، ساتھ ہی کچھ ایرانی افراد اور اداروں پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔
یہ تبدیلیاں تمام منظور شدہ افراد اور اداروں کی UNSC کی متفقہ فہرست میں بھی کی گئیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایران اب اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار نہیں ہے، حالیہ برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اقدامات کو برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی وسیع سیاسی اور قانونی کوششوں کے باوجود ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ان پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دیے جانے کے باوجود مغربی ممالک نے اتحادی ممالک کے ایک محدود گروپ کی جانب سے بیان جاری کر کے مذکورہ عمل کو حتمی شکل دینے پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دی گئی۔ آخر کار اقوام متحدہ کی طرف سے مذکورہ پابندیوں کے خاتمے سے متعلق ایک سرکاری نوٹ پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے باوجود انہیں جاری رکھنے کے امریکہ اور یورپی ممالک کے دعوے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران امریکا سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ پابندیوں کے مطلوبہ نتائج نہیں ملے، اب وقت آگیا ہے کہ امریکا غلط راستہ چھوڑکردرست کا انتخاب کرے۔
اس سے پہلے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی اس صورت ممکن ہے جب امریکا پابندیاں ہٹا دے۔ ہم ایک حق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایرانی قوم سے چھینا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکا اوریورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔
ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔جوہری معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن ایران بدستور اس کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایران ایک پرامن اسلامی ملک ہےجو سنہ 1958 میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968 میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیشرفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔ تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے۔ یہ ایندھن دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورنییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا،توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہا ں تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔
urdu news, Ending sanctions on Iran