دہشت گردوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان
دہشت گردوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان
رپورٹ، 5 سی این نیوز
دہشت گردوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے اج ایک انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت دوبارہ شروع کی جس میں عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے ٹرائل کو چیلنج کیا گیا تھا۔ بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ دہشت گردوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جرم کی نوعیت کا تعین ٹرائل فورم کرتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اگر کسی شہری کے جرم کو مسلح افواج سے جوڑا گیا تو مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلے گا۔ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جرم کے پیچھے نیت اہم ہے اور کیا جرم کا مقصد قومی مفادات کے خلاف تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ شواہد نیت کا تعین کرتے ہیں جس کا ٹرائل کے دوران جائزہ لیا جاتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ جی ایچ کیو اور کراچی ایئر بیس حملوں جیسے واقعات کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلایا گیا۔ حارث نے 21ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا، جس نے فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو وسیع کر کے روایتی فوجی نظم و ضبط سے ہٹ کر مختلف جرائم کو شامل کیا گیا ہے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے اور دیگر واقعات کے دوران آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پہلے سے موجود تھے، ان کا کہنا تھا کہ ترامیم کا مقصد وسیع تر جرائم سے نمٹنے کے لیے تھا۔
عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی، خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
urdu news, Constitutional amendment is needed for trial of terrorists in military courts
اسٹار لنک، سیٹلائٹ انٹرنیٹ اور کیبل انٹرنیٹ میںکونسا تیز ترین کام کرے گا، جائیے
آج وہ چاند نمودار ہو گیا، حامد حسین شگری