لمحہ فکریہ! پروفیسر قیصر عباس
لمحہ فکریہ! پروفیسر قیصر عباس!
urdu news
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے فرمایا ہے “ہماری حکومت 14اگست کو ختم ہورہی ہے،اس کے بعد الیکشن کی تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن نے کرنا ہے ،الیکشن اکتوبر میں ہوتے ہیں یا نومبر میں فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔”ان کا مزید کہنا تھا آئی ایم ایف سے قرضہ لینا لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے،urdu news یہ پروگرام حلوہ یا کھیر نہیں بلکہ بڑا سخت پروگرام ہے،آئی ایم ایف نے اکنامی جھکڑ رکھی ہے،قرض لیکر وقار مجروح کر چکے،اب اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہے۔”لیکن یہاں پر چند ایک سوال ضرور اٹھ رہے ہیں جو کہ بڑے ادب سے جناب وزیر اعظم سے پوچھے جا سکتے ہیں اگر جان کی امان دی جاِے تو؟پہلا سوال یہ ہے کہ پروگرام بہت سخت ہے اس کا مطلب ہے پھر آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے اور وہ فیصلے یقیناً پاکستانی عوام کے لئے اتنے حوصلہ افزا نہیں ہونگے بلکہ مہنگائی سے تنگ پڑی ہوئی عوام کو مزید تنگ کیا جائے گاurdu news۔دوسرا قرض لیکر جو وقار مجروع ہو رہا ہے جو ضمیر ملامت کر رہا ہے یا پھر عزت نفس پہ حرف آرہا ہے کیا یہ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ ہمارا وقار مجروع ہوا ہو عزت نفس پہ حرف آیا ہو یا ضمیر نے ملامت کی ہو.چند روز قبل بھی پشاور میں لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریب سے جناب وزیر اعظم نے فرمایا تھا”پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا،پاکستان جلد ہی اپنے پاوٴں پر کھڑا ہوجائے گا،مہنگائی میں بتدریج کمی آئے گی،آئی ایم ایف کا پروگرام بخوشی قبول نہیں کیا،سفارش اور کرپشن نے ملک کو نقصان پہنچایا ،آخر ہم کب تک قرض لیتے رہئے گے،جب کسی ملک جاتے ہیں تو استقبال کرنے والوں کے چہرے پکار پکار کے کہہ رہے ہوتے ہیں urdu newsیہ آگئے پیسے مانگنے والے،بھکاری پن کو ختم کرنا ہے تو اپنے پاوٴں پہ کھڑا ہونا ہوگا،مردوں اور عورتوں کو مل کر ترقی میں حصہ لینا پڑے گا۔”یہاں ایک اور سوال جناب وزیر اعظم سے بنتا ہے کہ حضور آخر یہ سفارش کرتا کون ہے ؟ اور کرپشن کس نے کی ہے ؟عام آدمی جب کسی بنک سے قرض لینے جاتا ہے تو اس سے تو ضامن طلب کئے جاتے ہیں اور اگر وہ یہ قرضہ مقررہ وقت تک ادا نہ کرے تو اس کی جائیداد تک نیلام کر دی جاتی ہے ۔یہ کرپشن کرنے والے سفارش کے کلچر کو متعارف کروانے والے اور بنکوں سے قرضے معاف کرنے والے آپ کی برادری یعنی اشرافیہ اور سیاست دانوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔جناب وزیر اعظم نے اپنے سیاسی حریف سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاurdu news”ایک شخص جس کو اسٹیبلشمنٹ نے بٹھایا ،ایسے انتخابات جو پاکستانی تاریخ کے دھاندلی زدہ تھے ،چار برسوں میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے،190ملین پاوٴنڈ کا ڈاکہ مارا گیا،اب تو وہ لوگ بھی بولنا شروع ہوگئے ہیں جو اس زمانے میں عمران خان کے اشارے پر ناچتے تھے (غالبا یہ شہزاد اکبر کی بات کی گئی ہے جو کہ عمران خان کے۔مشیر براِِئے احتساب تھے اور جنہوں نے چند روز پہلے نواز شریف کے حق میں اور جنرل باجوہ کے خلاف بیان دیا ہے) دن رات چور ڈاکو کہہ کر پوری اپوزیشن کو جیل میں بھجوا دیتے تھے۔”وزیر اعظم نے فرمایا “190ملین پاوٴنڈ پاکستان کے خزانے میں آنے چاہئے تھے لیکن سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں گئے،سپریم کورٹ حکومت ہے یا حکومت پاکستان حکومت ہے،سپریم کورٙٹ انصاف دینے والا ایک ادارہ ہے اس کے اکاؤنٹ میں پیسے جانے کی کیا وجہ ہے؟وہ پیسہ تو پاکستان کے خزانے میں جانا چاہئے تھا۔”یہ وہی 190ملین پاوٴنڈ ہے جو ایک پراپرٹی ٹائکون کو اس وقت ملا تھا جب برطانوی حکومت اور عمران خان کی حکومت کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا جو 190ملین پاونڈ کی رقم منجمد ہوئی تھی وہ واپس مل گئی اور بحریہ ٹاون کراچی کے کیس میں 460 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائے تھے جس کے بدلے القادر ٹرسٹ کے لئے 458کنال اراضی حاصل کی گئی تھی جس کا الزام عمران۔خان آور ان کی بیگم بشریٰ پر لگایا گیا ہے.اب سوال یہ ہےurdu news کہ عمران خان کے خلاف تو کیس بنا دیا گیا لیکن اس پراپرٹی ٹائکون کی طرف قانون کے لمبے ہاتھ کیوں نہیں پہنچ پائے ؟ اس پراپرٹی ٹائکون کی طرف بڑھتے ہوئے قانون کے ہاتھ شل کیوں ہوجاتے ہیں؟دوسری طرف تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالر بطور قرض منظوری دے دی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ڈیفالٹ ہونے کے چانسز قدرے کم ہو گئے ہیں۔آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری کے بعد دوست ممالک یعنی سعودی عرب نے بھی دو ارب ڈالر بطور قرض فراہم کر دیا ہے۔urdu newsسعودی ارب کے بعد متحدہ ارب امارات نے بھی 1 ارب ڈالرپاکستان کے خزانے میں جمع کروا دیا ہے ۔اب وقتی طور پر دم توڑتی ہوئی پاکستانی معیشت کو سہارا تو لازمی ملا ہے لیکن یہ سہارا عارضی طور پر ملا ہے نا کہ مستقبل بنیادوں پر۔ہمارے ارباب اختیار کو ایسی پالیسیز تشکیل دینی چاہئے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت اپنے پاوٴں پر کھڑی ہوسکے کیونکہ قرض لیکر کر نظام۔حکومت چلانا واقعی” لمحہ فخریہ” نہیں بلکہ “لمحہ فکریہ “ہے۔urdu news