جنوری کا آخری ہفتہ، پروفیسر قیصر عباس.
جنوری کا آخری ہفتہ، پروفیسر قیصر عباس.
urdu column
جمہوریت دنیا میں اس وقت پسندیدہ نظام حکومت ہے ۔جمہوریت کی کامیابی کی شرائط میں اولین شرط شفاف ٫اور غیر جانب داریت پر مبنی پرامن انتخابات ہیں ۔مقررہ میعاد کے مطابق جب حکومت کی مدت پوری ہوجائے تو بروقت انتخابات کروائے جائیں۔ دنیا میں اس وقت امریکہ اور برطانیہ جمہوریت کے حوالے سے مثالی ممالک ہیں اور دونوں ممالک میں بروقت انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے ۔انتخابات دراصل احتساب وجواب دہی کا ایک ایسا عمل ہے جس کے خوف سے حکومتیں ملکی نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کی کوشش کرتیں ہیں کیونکہ ارباب اختیار کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر عوام سے کئے گئے وعدے ہم نے پورے نہ کئے تو اگلے انتخابات میں ہمیں شکست سے دو چار ہونا پڑے گا۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ان دونوں ممالک میں کبھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے ۔جب کہ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے بعد 1970ءمیں براہ راست انتخابات منعقد کروائے گئے تھے ۔یاد رہے یہ انتخابات 1945ءاور،1946ء کے بعد پہلی دفعہ عام انتخابات تھے جس کے نتیجے میں بنگالیوں نے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی اور ملک دولخت ہوگیا۔بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی الیکشن 2024ءکے لئے جنوری کے آخری ہفتے کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے جب کہ اندر کی خبر رکھنے والے باخبر صحافیوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ تاریخ 25جنوری ہوگی۔27ستمبر کو حلقہ بندیوں کی پہلی جب کہ 30ستمبر کو دوسری فہرست شائع ہوگی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیف سیکریٹریز کو الیکشن کے انعقاد کے لئے تیاری کا حکم صادر فرما دیا ہے۔حتمی حلقہ بندیوں کے 54 دن کے بعد انتخابات کے انعقاد کا پروگرام ہے اسی سلسلے میں ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ضلع کے الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے الیکشن میٹریل کے لئے محفوظ جگہیں اور سکیورٹی فراہم کریں۔ابتدائی حلقہ بندیوں کے اعتراضات اور تجاویز کے بعد حتمی فہرست جاری کر دی جائے گی۔چاروں صوبوں کی چیف سیکریٹریز اور چیف کمشنر اسلام کو خط کے ذریعے اس بات سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ شفاف ٫غیر جانب دار اور پرامن انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل درآمد کیاجائے جس کے آئینی طور پر یہ آفسران پابند ہیں۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کا اس حوالے سے مختلف ردعمل ہے مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اسے ملکی جمہوریت ٫سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لئے ایک اہم قدم قرار دیا ہے جب کہ تحریک انصاف نے 90روز کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد پر زور دیا ہے اور اس بات کے ارادے کا اظہار کیا ہے کہ اگر الیکشن کا انعقاد آئین میں موجود مدت یعنی 90 روز میں نہ ہوا تو الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو عدالت میں لے جایا جائے گا۔ سب سے مختلف ردعمل پیپلز پارٹی کا ہے جس نے اس اعلان کو غیر قانونی اور آئین سے متصادم قرار دیا ہے اور الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔نئی نویلی پارٹی ” استحکام پاکستان پارٹی”کی ترجمان فردوس عاشق نے اس اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا “الیکشن کمیشن ملک میں طبل جنگ بجا دیا ہے”۔ںہرحال اس سب صورتحال کے باوجود ایک مثبت بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ سب جماعتیں جلد یا تاخیر سے ایک نقطے پر متفق ہیں اور وہ نقطہ انتخابات کا انعقاد ہے۔کیونکہ ساری جماعتیں اس بات پر اتفاقِ کرتیں ہیں کہ انتخابات کے انعقاد سے ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جو کہ معاشی استحکام کاسبب بنے گا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا سب جماعتوں بشمول تحریک انصاف لیول پلاینگ فیلڈ ملے گی ؟ کیونکہ 21 اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف بھی طویل خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آرہے ہیں یقینا ان کی واپسی کا مقصد عام انتخابات میں انتخابی مہم کو لیڈ کرنا ہوگا ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی حکومت ختم ہونے کے بعد مسلسل ن لیگ اور نگران حکومت پر تنقید کر رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے مطابق نگران حکومت بھی سابقہ حکومت کا تسلسل ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے انتہائی ذمہ دار راہنما خورشید شاہ نے نگران حکومت کو نون لیگ کی حکومت قرار دے دیا ہے ۔جب کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بارہا اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ “پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے”.عمران خان کی مخالفت نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو متحد رکھا ہوا تھا۔لیکن اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان وزارت اعظمی کو لیکر رسہ کشی شروع ہوگئی ہے ۔طرفین سے ایک دوسرے کے بارے میں بیانات دیئے جارہے ہیں یہ بیانات ابھی دوسرے درجے کی قیادت تک محدود ہیں مگر ایسا لگ رہا ہے کہ جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آئے گی اس تلخی میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ تلخی شاید مرکزی قیادت تک پہنچ جائے ۔کیونکہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے جب کہ مسلم لیگ کی نظریں شریف خاندان کے تینوں سرکردہ افراد میاں محمد نواز شریف ٫میاں محمد شہباز شریف اور مریم نواز شریف کی طرف لگیں ہوئیں ہیں۔اس کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا ہے مگر اس بلند درجہ حرارت کے باوجود انتخابات کے تاریخ کا اعلان ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے بقول شاعر
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے؛
urdu column, urdu news, Democracy is currently the preferred system of government in the world