معلوماتی دورہ ، پروفیسر قیصر عباس
معلوماتی دورہ ، پروفیسر قیصر عباس
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ملک عزیز کے 600سے زائد “ذہین دماغوں”یعنی بیوروکریٹس کے لئے مختلف ممالک میں ایک معلوماتی دورے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ایک تخمینے کے مطابق ایک بیوروکریٹ پر لگ بھگ دو لاکھ ڈالر سے زائد اخراجات آئیں گے ۔اس کے علاوہ دو سو ڈالر روزانہ کے حساب سے ان “صاحبان امر” کو بطور اعزازیہ بھی دیا جائے گا۔ جس جس ملک میں یہ معلوماتی دورہ ہوگا ان ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کو یہ حکم صادر کیاگیا ہے کہ ان علم کے “متلاشی حضرات “کے لئے باقاعدہ تقریبات کا اہتمام کیا جائے تاکہ ان صاحبان کی معلومات میں اضافہ ہوسکے ۔بیوروکریسی کے لئے اردو میں افسر شاہی بطور متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ہندوستان میں اگرچہ مغلیہ سلطنت اور اس سے پہلے جو شاہی ادوار گزرے ہیں بیوروکریسی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے مگر اس کو بہتر انداز میں انگریزوں نے منظم کیا بلکہ انگریز دور میں بڑے سرکاری افسر انگریز ہی ہوتے تھے جنہیں برطانیہ سے ہندوستانیوں پر حکومت کرنے کے لئے بلایا جاتا تھا ۔تاریخ میں ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ ہندوستان سے کسی انگریز افسر کا تبادلہ برطانیہ ہو جاتا تو اسے وہاں کسی بھی انتظامی عہدے سے دور ہی رکھا جاتا وجہ صرف یہ تھی چونکہ یہ لوگ ایک غلام قوم پر حکمرانی کر کے آئے ہیں اس لئے ان کے رویوں میں شاہانہ انداز رائج ہوچکا ہےاور اب یہ ایک آزاد قوم “برطانوی باشندوں “کی خدمت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ہندوستان پر 1857ءتک ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت کی اس کے بعد برطانوی حکومت نے براہ راست ہندوستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔انگریزوں نے جو نظام تعلیم ہندوستانیوں کو دیا اس کا بانی چارلس گرانٹ ہے جو کہ دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا۔ اسی نے ہی اس بات کی سفارش کی کہ ہندوستانیوں کو ان کی زبان میں تعلیم دینے کی بجائے انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے ۔دراصل مقصد صرف یہ تھا کہ انگریز سرکار کو چلانے کے لئے چھوٹے درجے کے اہل کاروں یعنی” کلرکس ” کی ضرورت تھی اس لئے انگریز چاہتے تھے کہ ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو رنگ اور نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن سوچ کے لحاظ سے انگریز ہو۔اس کے بعد انگریز سرکار نے باقاعدہ ایک نظام متعارف کروایا جسے” انڈین سول سروس” کا نام دیا گیا یہ دراصل مقابلہ کا امتحان تھا جسے پاس کرنے کے بعد انڈین بیوروکریسی کا حصہ بنا جاسکتا تھا۔ یہ امتحان شروع میں برطانیہ میں ہی ہوتا تھا ۔لیکن بعد میں ہندوستان میں بھی یہ امتحان لیا جانے لگا۔پاکستان بنا تو اس امتحان کا نام انڈین سول سروس کی بجائے سنٹرل سپیرئیر سروس” CSS”رکھ دیا گیا ۔پاکستان بننے کے بعد سے لیکر اب اسی امتحان پاس کرنے والے طبقے کی حکمرانی ہے ۔کسی نہ کسی شکل میں اس ملک پر اسی طبقے کا راج ہے ۔بلکہ سیاسی جماعتوں کی طرح بیوروکریسی میں بھی واضح تقسیم ہوچکی ہے کوئی جماعت بھی جب حکومت میں آتی ہے تو وہ چن چن کے یہ” ہیرے “اپنے تاج میں سجا لیتی ہے اور جب صاحب تحت ٫تحت سے فرش پہ آتا ہے تو یہ ہیرے بھی “کھڈے لائن” لگ جاتے ہیں مگر جونہی سیاست دانوں کی ایوان اقتدار میں واپسی ہوتی ہے تو پھر سے یہ” ہیرے ” تاج میں جڑ دئیے جاتے ہیں۔ملک کے معاشی حالات جتنے مرضی خراب ہوں ان صاحبان کی چاندی ہی رہتی ہے ۔ایک طرف ہم اک اک ڈالر کے لئے پوری دنیا کے سامنے کشکول لئے پھرتے ہیں مگر ان ” کالے انگریزوں” کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ان کو نوازنے کا عمل پوری آب وتاب سے جاری ہے ۔ان کی مراعات کو مختلف نام دے کر ملک کی معاشی حالت اس قدر پتلی ہوگئی ہے کہ کسانوں سے گندم خریدنے کے لئے پیسے تک نہیں مگر معلوماتی اور تفریحی دورے جاری ہیں بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی اک دن
پروفیسر قیصر عباس!
ڈاکٹر غلام رضا کی قیادت میں بلتستان یونیورسٹی کے وفد کا کالج آف ٹورازم اینڈ ہسپٹیلٹی مینجمنٹ کا دورہ
urdu column, Informational tour