انتخابی نشان بلا یا گھڑی, پروفیسر قیصر عباس
انتخابی نشان بلا یا گھڑی, پروفیسر قیصر عباس
انتخابات کسی بھی جمہوری ملک میں ناگزیر ہیں ۔اگر کوئی ملک یہ دعویٰ کرے کہ وہاں جمہوری نظام ہے لیکن وقفے وقفے سے انتخابات نہ ہوں تو اس نظام کو کوئی اور نام تو دیا جاسکتا ہے مگر جمہوری نظام کہنا بے وقوفی ہوگی ۔سیاسی جماعتیں اس جمہوری نظام کو تقویت بخشتی ہیں انتخابات کے بعد ایک جماعت یا پھر جماعتیں مل کر حکومت بناتی ہیں جب کہ ان جماعتوں سے نظریاتی اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعت یا جماعتیں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں جب “جدید ریاست “جسے ہم “ماڈرن سٹیٹ” بھی کہتے ہیں٫ کا تصور ذہن میں آتا ہے تو ہماری توجہ فورآ امریکہ اور برطانیہ کی طرف چلی جاتی ہے یہ دونوں ممالک ایسے ممالک ہیں جہاں جنگوں میں بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔جب انتخابات ہوتے ہیں تو مختلف سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات الاٹ کئے جاتے ہیں جن کے حق میں ووٹرز اپنے حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اگر امریکہ کی بات کی جائے تو وہاں دوجماعتی نظام ہے یعنی ان کے ہاں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اپنا مضبوط وجود رکھتی ہے ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان “گدھا “جب کہ ریپبلکن پارٹی کا انتخابی نشان” ہاتھی” ہے.دونوں جماعتیں گزشتہ کئی سالوں سے انہیں انتخابی نشانات کے تخت انتخابات لڑتی آرہی ہیں۔اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کی تخلیق کی وجہ بھی 1945-1946 ء کے انتخابات ہی بنے تھے ان انتخابات میں مسلم لیگ کا انتخابی نشان “ہلال اور ستارا” تھاجب کہ مسلم لیگ کی حریف سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا انتخابی نشان” ہاتھ کا پنجہ”تھا ۔پاکستان بننے کے بعد عام انتخابات 1970ء میں ہوئے جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا اس انتخابی معرکے میں دو سیاسی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ جب کہ مغربی پاکستان کے صوبہ پنجاب اور سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو نے میدان مارا۔یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت اقتدار اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو کیوں نہ دیا گیا ؟اس انتخابی معرکے میں عوامی لیگ کا انتخابی نشان “کشتی “تھا جب کہ پیپلز پارٹی کا “تلوار”تھا۔مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو مغربی پاکستان میں اقتدار بھٹو صاحب کو دے دیا گیا۔مقبولیت کے زعم میں بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخابات کروا دئے بھٹو صاحب کے مخالف سیاسی رہنما اکھٹے ہوگئے اور انہوں نے ایک سیاسی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جس کا نام “پاکستان قومی اتحاد “رکھا گیا یہ اتحادنو سیاسی جماعتوں کا مجموعہ تھا بھٹو صاحب سے ایک سیاسی غلطی یہ ہوئی کہ بھٹو صاحب نے اس اتحاد کو ایک ہی انتخابی نشان آلاٹ کر دیا پاکستان قومی اتحاد کا 1977ء کے انتخابات میں انتخابی نشان “ہل”تھا جب کہ بھٹو صاحب کا” تلوار”۔پاکستان قومی اتحاد نے اس انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دے کر تحریک چلائی جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پہ قبضہ کیااور بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی ۔1985ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے غیر جماعتی الیکشنز کروائے گئے ۔اپنے ہی وزیراعظم کو گھر بیھج کر ایک دفعہ پھر سے انتخابات کا طبل بجایا گیا مگر انتخابات سے پہلے ہی ضیاء الحق اللہ کو پیارے ہوگئے۔بے نظیر بھٹو نے 1988ءمیں پہلی دفعہ انتخابات میں حصہ لیا اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے دو کام کئے پہلا بھٹو مخالف سیاسی راہنماؤں کو ایک بار پھر سے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور اس سیاسی اتحاد کا نام آئی جے آئی” اسلامی جمہوری اتحاد” رکھا جس کی قیادت جنرل جیلانی کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے” ہیرے”یعنی میاں محمد نواز شریف نے کی ۔دوسرا کام پیپلز پارٹی کو انتخابی نشان” تلوار”دینے کی بجائے”تیر “دیا گیا مگر اس کے باوجود بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئی جب کہ مسلم لیگ کو انتخابی نشان “سائیکل” دیا گیا۔1996ءکے انتخابات میں ایک نئی سیاسی جماعت نے انتخابات میں حصہ لیا اس جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف تھااور اس جماعت کے چئیرمن عمران خان بنے۔ ابتدا میں اس جماعت کو “دیا”یعنی چراغ انتخابی نشان دیا گیا ۔جب کہ مسلم لیگ نون نے انتخابی نشان “شیر “پسند کیا۔اب دور حاضر میں مسلم لیگ ق کے پاس” سائیکل “٫جمعیت علمائے پاکستان کے پاس” کتاب”٫جماعت اسلامی کے پاس” ترازو “٫پیپلز پارٹی کے پاس” تیر” ٫مسلم لیگ ن کے پاکستان کے پاس “شیر “٫ایم کیو ایم کے پاس” پتنگ” ٫تحریک لبیک پاکستان کے پاس” کرین “٫عوامی نیشنل پارٹی کے پاس “لالٹین “اور تحریک انصاف کے پاس “بلا”انتخابی نشان ہے۔ 2024ءکے انتخابات کی آمد آمد ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کو پارٹی الیکشن کروانے کا حکم دیا چونکہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین مختلف مقدمات کی وجہ سے جیل میں ہیں سب سے پہلے عمران خان کو تحریک انصاف کی چئیرمن شپ چھوڑنا پڑی ۔اس کے بعد تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن کروائے گئے جس کے نتیجے میں بیرسٹر گوہر ایوب اس کے چئیرمن منتخب ہوئے جب کہ عمر ایوب اس جماعت کے سیکرٹری جنرل بنے مگر اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشنز مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان “بلا”بھی واپس لے لیا ہے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس الیکشن میں تحریک انصاف پاکستان کے امیدوار آزاد حیثیت میں بغیر “بلے “کے انتخابی نشان کے حصہ لیں گے۔لیکن ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس اقدام کے خلاف تحریک انصاف انصاف سپریم کورٹ میں چلی جائے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سے تحریک انصاف کو ریلیف مل جائے ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر تحریک انصاف کو سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابی نشان دیا گیا تو سکتا ہے کہ” بلے” کی بجائے” گھڑی” دی جائے یاد رہے “گھڑی “کا انتخابی نشان اصل میں تحریک انصاف کی “چھیڑ”ہے اور یہ انتخابی نشان تحریک انصاف کو زچ کرنے کےلئے دیا جائے گا کیونکہ بانی تحریک انصاف پر توشہ خانہ کی “گھڑی “کا مقدمہ بھی چل رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کا راستہ روکا جائے اور اسے بطور جماعت اس سیاسی عمل سے دور رکھا جائے۔ ہمارے ارباب اختیار نے شاید اس بات سے سبق نہیں سیکھا کہ 1988ءمیں بھی بے نظیر بھٹو کی مقبولیت سے خائف ہوکر” تلوار” کی بجائے “تیر “کا انتخابی نشان دیا گیا مگر عوام نے تیر کو ہی ووٹ دیا۔انتخابی نشان کو تبدیل کرنا یا واپس لینا کسی سیاسی رہنما کی مقبولیت جانچنے کا میعار نہیں ہے۔اس لئے اس ساری کوشش کو لاحاصل کوشش ہی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا
Urdu column, column in Urdu
پروفیسر قیصر عباس!