شگر .خطروں کا ایک اور کھلاڑی کے ٹو کی آغوش میں فنا، اسلم ناز شگری
شگر ، خطروں کا ایک اور کھلاڑی کے ٹو کی آغوش میں فنا، اسلم ناز
urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow
محمد حسن کا تعلق شگر تسر کے گاؤں تھماچو سے تھا۔ بچپن میں ہی یتیمی کے دکھ سہنے والا یہ نوجوان اگرچہ انپڑھ تھا لیکن متعدد صلاحیتوں سے مالامال تھے۔ جب سے ہوش سنبھالا گھر کی معاشی سرگرمیوں کا بوجھ بھی انہیں برداشت کرنا پڑا۔ محنت مزدوری ان کی کمائی کا ذریعہ تھا۔ اس کے علاؤہ قلیل سی آمدنی زرعی زمینوں سے بھی حاصل کرتے تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے لکڑی بطور ایندھن جمع کرنا اور بکرکوٹھوں پر بطور چرواہا کام کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ بقول مستنصر حسین تارڑ شگر کا ہر بندہ زندگی میں کم از کم ایک بار پورٹر بنا ہوتا ہے۔ عین اسی قول کے محمد حسن نے بھی اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے سیاحوں کے ساتھ بطور پورٹر کام کرنا شروع کردیا۔ سفیدوں کی چوٹیوں تک چڑھنا اور اخروٹ کے دیوہیکل درختوں کے بادلوں سے ٹکراتے پتلے شاخوں پر چڑھ کر اخروٹ اتارنا جیسے نازک اور خطرناک ترین کام تو گویا اُس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسی قدرتی صلاحیت اور بہادری نے انہیں سیاحتی شعبے میں بھی جلد کامیابیاں فراہم کرنا شروع کردیا۔ بہت جلد انہوں نے بطور پورٹر بوجھ اٹھانے کے بجائے بحیثیت ہائی ایلٹی چیوڈ پورٹر سیاحوں کو مختلف چوٹیاں سر کرنے میں مدد فراہم کرنے کا کام بطور پیشہ اپنانے کا تہیہ کرلیا۔ اب کی بار معیشت کو سہارا دینے اور اپنے قدرتی صلاحیتوں اور خواہشوں کی تسکین کی غرض سے کے ٹو کا غرور خاک میں ملانے کی ٹھان لی۔ دیگر دوستوں اور غیر ملکی سیاحوں کے ہمراہ ایک ماہ قبل وہ کے ٹو مشن پر روانہ ہوگیے۔ urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow
چھ دنوں میں کےٹو بیس کیمپ پر پہنچے اور آہستہ آہستہ چوٹی کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا۔ موسم کی خرابی روڑے اٹکاتی رہی لیکن حسن کا حوصلہ چٹان جیسا مضبوط تھا۔ وہ ایک ایک قدم اوپر چڑھتے گیے۔ کیمپ فور پر پہنچنے کے بعد اگلی منزل سمٹ پُش کی تھی۔ مناسب موسم کا انتظار کرتے رہے۔ آخر کار 27 جولائی 2023 یعنی آٹھ محرم الحرام کی صبح صادق کے ساتھ وہ سمٹ پش کی خاطر کے ٹو کے سب سے خطرناک ترین مقام بوٹل نیک پر پہنچے جو کہ سطح سمندر سے 8200 میٹر (26900 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر کئی نامور کوہ پیما اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ علی سدپارہ جیسا خطروں کا عظیم کھلاڑی بھی اسی مقام پر داعی اجل کو لبیک کہہ گیے تھے۔ خیر محمد حسن اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کٹھن راستوں سے گزرتے ہوئے فاتح کے ٹو بننے کا خواب دل میں سجائے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ وہ سمٹ سے محض چار سو میٹر کی دوری پر تھے اور اوپر بڑھتا ایک ایک قدم کامیابی کی نوید سنارہا تھا لیکن اس موڑ پر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پاؤں پھسلا یا برف کا تودہ گرا نہیں معلوم حسن کے ہاتھوں سے رسی نکل گئی اور پلک جھپکنے میں وہ کئی میٹر نیچے گہری کھائی میں جاگرے۔ پاکستانی پرچم کے ساتھ آٹھ محرم کو علم حضرت عباس بھی کے ٹو کی فلک بوس چوٹی پر لہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے رہ گیا۔ ان کے ساتھی کوہ پیما جن کا تعلق بھی ان کے اپنے گاؤں ہی سے تھا انہوں نے اپنی سمٹ پُش کو روک دیا اور حسن کو ریسکیو کرنے کا فریضہ سر انجام دینا صدقہ جاریہ سمجھ کر انہیں بچانے کی کوشش شروع کردی۔ چند گھنٹوں کی کوششوں کے بعد وہ حسن کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت ان کی زندگی کی ایک رمق باقی تھی لیکن آٹھ ہزار دو سو میٹر کی بلندی پر زخمی انسان کی بچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اور پہاڑوں کا یہ پھرتیلا شہزادہ کے ٹو کی بلندی پر موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوگئے۔urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow
مرحوم محمد حسن کی موت کی خبر جب ہوا کی دوش پر چند لمحوں میں اُن کے آبائی گاؤں پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ وہ اپنے پیچھے تین یتیم بچے اور بیوہ چھوڑ گئے ہیں۔ بڑا بیٹا فیضان چھ سال کا ہے جبکہ منجھلا بیٹا دانش چار سال کا نیز سب سے چھوٹا بیٹا محمد محض دو سال کا ہے۔ نہیں معلوم ان ننھے ازہان پر کیا بیتی ہوگی جب عین اسی دن جب گھر پہ کے ٹو سر کرنے کی خوشی منانے کی تیاریاں جاری تھیں تو اچانک رشتہ دار جمع ہوں اور مرثیوں اور رونے کراہنے کی کربناک آوازیں ان کے کانوں میں گونجنے لگیں۔ نہیں معلوم ان کی بیوہ وہ لمحہ کیسے بھول پائے گی جب انہیں اپنے بچوں کی یتیمی کی خبر اور پرسہ دینے گاؤں کی خواتین جمع ہوگئی ہوں۔ urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow
خدا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اقارب کو اس غم کو سہنے کی توفیق بخشے۔
محض دو دن اُن کے جاننے والوں نے سوشل میڈیا پر دکھ کا اظہار کیا اور اب ان کی موت کا قصہ قصہء پارینہ بن چکا ہے۔ اگر کوئی عالمی سیاح ہوتا یا کوئی اور مشہور کوہ پیما ہوتا تو شاید میڈیا کئی دن تک کوریج دیتا رہتا لیکن حسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس جرم کی وجہ سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جوانی کی موت کا تو کوئی نعم البدل نہیں لیکن اگر صاحبان اختیار sympathy سے نکل کچھ empathy کا مظاہرہ کریں تو ان کی بیوی بچوں کے درد میں کچھ حد تک افاقہ ممکن ہے۔ ٹورزم کمپنی مالکان کو چاہیے کہ اس مرحوم کی انشورنس کی رقم انہیں ادا کی جائے اور ان کے بیوی بچوں کی مالی معاونت کی جائے۔ زندگی اس نے آپ کی کمپنی کے ٹورسٹس کی خدمت کی ہے اور آج اس کے یتیم بچے آپ کی مدد کے منتظر ہیں۔ محکمہ سیاحت کے حکام سالانہ لاکھوں کی رقم فیسٹیولز پر لٹاتے ہیں لیکن اس غریب کوہ پیما کے وارثان کی اشک شوئی کی گنجائش ان کے پاس نہیں۔ خدا کے لئے ان بچوں کی نم آنکھیں آپ کی جانب سے معقول مالی معاونت کی راہ تک رہے ہیں۔
محکمہ تعلیم شگر کے موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر جناب فاروق احمد صاحب ایک متحرک اور دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان سے دست بستہ اپیل ہے کہ اس کے اُن دو یتیم بچوں کی مدد فرمائی جائے جو کہ گورنمنٹ پرائمری سکول تھماچو میں زیر تعلیم ہیں۔ خدا آپ کی عزت میں اضافہ فرمائے گا۔ urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ صاحب! سیاحت جی بی کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور آج وطن کا یہ سپوت سیاحت پر قربان ہوا ہے تو اس کے بے سہارا بچوں کی مدد ریاست کی زمہ داری ہے۔ ڈپٹی کمشنر شگر جناب ولی اللہ فلاحی صاحب سے امید ہے کہ وہ اس غریب خانوادے کی فلاح کے لیے کچھ اقدامات کریں گے۔
محمد حسن تو کے ٹو کی منفی تیس کی سردی میں ابدی نیند سوگئے لیکن اربابِ اختیار کے امتحان کے طور پر تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس امتحان میں کامیاب ٹھہرتا ہے ۔urd news,Dangers annihilate in the embrace of another player’s tow