قاتلانہ حملہ۔ پروفیسر قیصر عباس گلگت پڑی بنگلہ میں ورکرز کنونشن کا انعقاد کنونشن میں پڑی بنگلہ بھر سے ہزاروں افراد کی شرکت شگر ۔ منصوبہ بندی و ترقیات گلگت بلتستان راجہ ناصر علی خان، ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان مشتاق احمد، سیکرٹری تعمیرات کے ہمراہ لمسہ روڈ کا دورہ شگر محرم الحرام میں مجالس اور جلوس کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کیلئے سیکورٹی فورسز کا فلیگ مارچ کا انقعاد ۔ فیڈرل بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا شگر ، ور کمپنیاں اپنی وعدوں کے مطابق پورٹرز کو ادائیگی کرنے سے مکر گیا۔ پورٹرز کو ادائیگی کے بجائے سکردو سے پیمنٹ لینے کی چٹ دینے لگے علماے امامیہ شگر نے محرم الحرام کو مذہبی روادری اور امن و امان کے ساتھ منانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کا پلان تیار کرلیا ماہ مقدس ایثار، قربانی، جد و جہد، انسانی اقدار اور عوامی حقوق کا درس دیتا ہے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان شگر کے معروف سماجی رہنما غلام نبی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے یونیورسٹی آف بلتستان کے شعبہ لینگویجز اینڈ کلچرل سٹیڈیز کے زیر اہتمامُ”گلگت بلتستان میں اردو زبان و ادب کی روایت” کے عنوان سے ایک سیمنار کا انعقاد

کالمز

کل سے خوفناک آج

تحریر: شجاع شگری

وہ چاروں سرد موسم میں تیز دھوپ سہتےسڑک کے اس پار دیوار کیساتھ ٹیک لگاٸے بیٹھے نہایت سنجیدہ گفتگو میں مگن تھے، ان کے درمیان تکرار بھی تھے ، اتفاق بھی ،اختلاف بھی اور ان کے پاس تجاوز بھی تھے ۔ انکی باتوں میں تنقید بھی تھے ، دانش مندی اور نصحتیں بھی ، میں ساتھ برابر کسی دوکان کے بر آمدے میں کھڑا آدھے گھنٹے سے انکی باتیں توجہہ سے سن رہا تھا ۔ان چاروں کے تجزیے کسی تجربہ کار تجزیہ نگار سے زیادہ دلچسپ ٗ ان کی تجاوز کسی پیشہ ور علم و ادب کے ماہر مصنف کی تحریر کے چند سطور لگ رہے تھے ٗ کچھ دیر سننے کے بعد خاموش نزدیک جا کربیٹھ گیا اور مزید انکی باتوں پر غور کرنے کا ارادہ کر لیا ۔

وہ چاروں ہمارے گاوں کے بزرگوں میں سے تھے ٗان میں سے دو کو اپنے زمانے کے نامور سرکردگان کی فہرست میں نام سنا تھا ان کی گفتگو میں اپنی زندگی کی تلخیوں کا مختصر قصہ بھی تھا ٗ سر ہلاتے ان میں سے ایک اپنے دور کی سختوں کو بیان فرما رہے تھے وہ اپنے پچپن میں تن ڈھانپنے کے لباس نہ میسر ہونے کا اپنے زمانے کی شکایتیں لگا رہے تھے ٗ تو ان میں سے دوسرا اپنے دور کو دنیا سے نا واقف تنہا روزی روٹی کے لیے درپیش مشکلات کا زکر کرتے ہوٸے دل ہی دل میں آہ بھرے چہرے سے تلخ زندگی کا تاثر دے رہا تھا، تیسراشخص نے ان سب تلخیوں کے علاوہ اس وقت کی ایک دوسرے سے خلوص و محبت اور درد کا زکر کرتے ہوۓ اس دور کی انسانیت کی تعریف کر رہا تھا اور آج کے تعیلم یافتہ دور کے انسانوں کی ایکدوسرے سے بے روخیوں پر سخت انداز لیے آج کے انسانوں کو اس وقت کےانسانوں سےبرا اور سنگ سمجھ رہے تھے ۔چوتھا شخص آج کے دور کو خوش قسمت قرار دے رہا تھا، باقی تینوں ان کی طرف متوجہ تھے وہ کہہ رہا تھا کہ ُ کاش ہم بھی اس دور میں پیدا ہوتے میں آج بجلی کی روشنی میں پڑھتے بچوں کو دیکھ کر خود کو بدنصیب سمجھتا ہوں ہم نے تو موم بتی کے شعلیں بھی بہت دیر سے دیکھے ٗ اس دور میں مہینے کی راشن کے حصول کے واسطے مہینوں کا سفر کرنا پڑتا تھا ، اب یہ کھلے راستے ان پر ڈورتی گاڑیاں ،صحت کے مراکز ،تعلیم کے ادارے و دیگر آج کے نسلوں کی خوش نصیبی میں شمار کیا جا رہاتھا ، اور کہے جا رہے تھے ان سب سے ہم اپنی زندگی کے ایک اہم حصے تک ناواقف رہے۔ان کی باتوں میں تھوڑا وقفہ آیا اس کے بعد میں بھی انکے قریب گیا انھوں نے کہا ُ یہ لے آج کے دور کا ایک انسان آیا ٗ میں نے مسکرا جواب دیا آپ لوگ بھی تو ہے فورا ایک نے بات کاٹتے ہوۓ کہا نہیں جی فرق ہے آج کے انسان میں بات کرنے کا اسٹاٸل الگ ، لباس پہنے کا انداز الگ ٗآج کے انسان ہر کوٸی پڑھ اور لکھ سکتا ہے’ اور آپ دیکھ لیجے ہمارے عمر کے لوگوں سے آپ کا اپنا موازنہ کیجے خود لگے گا کہ ہم اور آپ میں واضح فرق ہے اسی لیے ہم آج کے انسانوں میں نہیںٗ’ ۔
میں ٹھہڑا اور کہا دیکھیں! آج میں کیا ہے؟ آپ نے کہا بجلی ہے ،روڈ ہے ، اسکولیں ہیں ، ہسپتالیں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے آسان سفر کے زرایع بھی ہیں ، آج کھانے کو طرح طرح کے غذاٸیں ہر کوالٹی کے پکوانیں ٗ سبزیاں بھی اور کٸی اقسام کے آٹے اور دیگر خوردنی اشیا علاوہ متعدداقسام کے مشروبات بھی جوکہ ہر موسم میں الگ الگ دستیاب ہیں ٗ پہننے کو بھی بہت سی اقسام کے رنگ برنگی ملبوسات شاید ان میں سے اکثر کے نام تک نہ جانتا ہو ٗ آج ہم چندگھنٹوں میں دنیا گھوم سکتے ہیں حالانکہ ہاتھ میں لیے اس چھوٹے سے آلے سے دنیا جیب تک آچکی ہے،میں نے موباٸل فون دیکھاتے ہوٸے کہا ‘میں یہاں بیٹھ کر کعبے میں حج کے مناظر دیکھ سکتا ہوں ، میں یہاں سے امریکہ کی حالات کا خبر ایک سکینڈ میں لے سکتا ہوں’ ۔میں نے مزید کہا آج کے انسان نے اڑنے کا خواب پورا کیا،سمندر کے تہہ پر رہنے کا ہنر بھی سیکھ لیا، چاند تاروں پر کمند ڈالنے کے مشورے بھی کرکےدیکھایا ٗ چاروں ہاں میں ہاں ملاتے نہایت انہماک سے میری باتیں سن رہے تھے ۔میں نے گفتگو ختم کرتے ہوۓ انہیں پوچھا اس کے باوجود کیا آج کے انسان پہلے سے زیادہ خوش ہے ؟ آج کے لوگ مہنگی ڈگڑیاں لیکر آپ کے دور کے لوگوں کی طرح مہذب نہیں ، لاٸٹن کے شعلوں میں سکون تھا بجلی نے ساتھ اتنے بے سکونی کے آلات لے آٸ کہ آج کے انسان رات کاآرام بھی بھول گٸے ٗ جب تک انسان نے ترقی نہ کی تھی ہمارے معاشرے میں شرم حیا کو روایات میں اول سمجھی جاتی تھی آج ٹیلی وژن پر چلتی ھالی وڈ بالی وڈ فلمیں اور تخلیقی ڈراموں سے خواتین نے ڈھنگ کے لباس پہنا بھی چھوڑ دیا ہے فلموں کی لڑاٸیوں کو حقیقی روپ دے کر آج کے انسان ایکدوسرے پر گولی چلانے کو کھیل سمجھتے ہیں ، انسان نفسا نفسی میں ہے رشتوں کا لحاظ ہے نہ فکر آپ کے ماضی کا