شگر .حلقہ بندی وقت کی ضرورت.علی نادم بلتی
حلقہ بندی وقت کی ضرورت.
For shigar, Constituent time requirement
مسائلوں کی گڑھ ضلع شیگر بلتستان کے پسماندہ ترین ضلعوں میں سے ایک ضلع شمار ہوتا ہے قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث آج بھی مسائلستان بنا ہوا ہے ان مسائل کے بہت سارے اسباب ہے ان میں سے ایک حلقہ بندی کا نہ ہونا ہے
واضح رہے ڈسٹرکٹ شیگر تقریبا بلتستان میں آبادی اور رقبےکے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے کچھ سال پہلے ہی شیگر اور کھرمنگ کو ایک ساتھ ضلع کا درجہ دیا گیا لیکن ترقیاتی اعتبار سے کھرمنگ شیگر سے بہت اگے نکل چکے ہیں جس کی ایک وجہ آبادی اور رقبے کا فرق ہے اور ساتھ ہی انتظامیہ کی اہلیت اور دلچسپی بھی۔ کھرمنگ میں، شیگر کی نسبت دو گنا سے زیادہ اساتذہ اور سکولز ہے جبکہ شیگر ابھی بھی بہت سارے تعلیمی اداروں میں ایک ٹیچر کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہے ایسے دیگر بہت ساری چیزیں ہے جن میں شیگر دیگر اضلاع کی نسبت بہت پیچھے رہ چکا ہے
چونکہ آج ہمارا ٹاپک حلقہ بندی ہے لہذا ہم اسی پہ بات کرینگے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے شیگر کےممبر اسمبلی نے اسمبلی میں ضلع اور شیگر میں مزید حلقہ بندی کے لیے قراداد پیش کیا جو کہ اسمبلی سے تو پاس تو ہو گیا لیکن بدقسمتی سے جعلی ڈسٹرکٹ کے افتتاح کے باوجود اس پر حیققی معنوں میں عملدرآمد نہیں ہو سکا اور یوں بعد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ڈیل کے تحت ضلع پر تو عملدرآمد ہو گیا لیکن حلقہ بندی کا معاملہ پھر رہ گیا جو کہ اب تک نہیں ہو سکا۔۔
ڈسٹرکٹ شیگر کو ضلع بننے کے بعد اگر چہ کچھ دیگر سہولیات ملے جسے ڈی سی ڈی ایچ و دیگر محکموں کے دفاتر شیگر میں کھل گئے جس سے عوام کو کافی سہولت میسر ہوئے تاہم جہاں تک ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے وہ چونکہ ملنے والی فنڈز پہ منحصر ہوتے ہیں اس لیے ضلع بننے کے باوجود اس میں کوئی فرق نہیں آئے۔ کیونکہ، ضلع بننے کے باوجود شیگر کو وہی ایک حلقے کا فنڈ ملتا رہا جو پہلے تحصیل کی شکل میں ایک حلقے کا فنڈ ملتا تھا۔۔
عوامی نمائندوں اور دیگر سماجی رہنماؤں کو بھی ہمیشہ اس بارے بات کرتے دیکھا ہے کہ جب تک حلقہ بندی نہیں ہوگی ترقیاتی کاموں میں کوئی فرق یا بہتری ممکن نہیں کیونکہ شیگر اتنا بڑا ہے کہ ایک ممبر اسمبلی کا فنڈ کسی بھی صورت اتنے بڑے ضلع کے لیے کافی نہیں۔
حلقہ بندی کے بارے میں پچھلے کئی سالوں سے آوازیں اٹھتی رہی ہے لیکن اسے آج تک کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکے۔
شیگر کے نوجوانوں نے پچھلے ایک دو سال پہلے سوشل میڈیا پر شیگر حلقہ دو کے نام سے تحریک کا اغاز کیا جس میں بندہ ناچیز خود بھی شامل تھا لیکن اہستہ اہستہ وہ تحریک بھی دم توڑ گئے جس کی اصل وجہ گراونڈ لیول پر کوئی اس حوالے سے سرگرمی نہ ہونا تھا
اس تحریک کے بعد سول سوسائٹی شیگر اور دیگر نوجوانوں کی ایک بیٹھک ہوئی اور حلقہ دو تحریک کو مزید تیز کرنے پر اتفاق تو کر لیا لیکن بدقسمتی سے وہ مٹینگ ہی اخری مٹینگ ثابت ہوئے اور رات گئی بات گئی کہانی ختم ہوا اور اس حوالے کبھی دوبارہ کوئی بیٹھک کی کوشیش نہیں ہوئے۔
اس تحریک کے بعد ہم نے ایک بار اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب حافظ حفیظ الرحمن کو ایک قراداد دیا جب وہ ایک بار دبئی تشریف لائے ہوئے تھے جس میں شیگر ڈی ایچ کیو اور حلقہ بندی و دیگر چند اہم مسائل کے بارے میں گزارش کی گئی تھی وزیر اعلیٰ صاحب نے موقع پر تو مطمئن کر لیا کہ شیگر سے میرا ذاتی دلچسپی ہے انشاء اللہ جاتے ہی اس پہ کوشیش کرونگا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی صرف وقتی تسلی ثابت ہوئی اور کچھ عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ یوں ہم نے ایک بار پھر بعد میں سی ایم سیکریٹریٹ میں ایک خط لکھ کر ان کو یاد دہانی کرایا کہ اس مسائل کے بارے میں جن کا آپ نے وعدہ کیا تھا کیا بنا لیکن واللہ اعلم ہمیں بھی پتہ نہیں چل سکا کہ اس خط کا بھی کیا بنا۔بالاخر حکومتی حلقوں میں تبدیلی کا وقت ا گیا اور ہماری پارٹی یعنی، پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار آئی۔
الیکشن سے پہلے چونکہ الیکشن کمپئین میں ہم خود ساتھ ساتھ تھے راجہ صاحب کو ہم نے کئی بار اس بارے میں کہا کہ حلقہ بندی اور نئی تحصیل وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے راجہ صاحب خود اس حوالے سے متفق تھے گوکہ ایک جگہ تقریر میں راجہ نے نے فرمایا، کہ اگرچہ ایک سیاسی لیڈر کے فائدے میں نہیں کہ وہ حلقے بنا کے اپنے ووٹرز کم کرے لیکن چونکہ میرا مشن علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود ہے جس کے لیے حلقہ بندی بہت ضروری ہے اور انشاءاللہ میں اس حوالے سے پوری کوشش کرونگا ساتھ ہی ہم نے راجہ صاحب کو کئی جگہوں پہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ حلقہ بندی اور لینڈ ریفارمز میری پہلی ترجیح ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ڈھائی سال گزر گیا لیکن نا لینڈ ریفارمز بل پیش ہو سکا نہ ہی حلقہ بندی بل۔ یہ الگ بات ہے کہ اسمبلی میں احتجاج و دیگر مسائل کے بنا پر اس وقت لینڈ ریفارمز کمیٹی اس حوالے سے کام کر رہی ہے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد جب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جناب خالد خور شید صاحب دبئی یاترے پہ پہونچے تو ہم نے پھر سے امیدیں باندھ لی اور ایک بار پھر وزیر اعلی کو قراداد تھما دیا اور شیگر میں حلقہ بندی ڈی ایچ کیو ہسپتال و دیگر اہم چند ایشوز کو باقاعدہ تحریری شکل میں دینے کے ساتھ ساتھ زبانی طور پر مکمل سمجھا دیا۔
خالد خور شید صاحب ایک انتہائی نفیس اور با اخلاق شخصیت ہے لہذا جناب نے پوری ڈیٹیل سے معاملہ سن لیا اور جلد اس پہ عملدرآمد کی یقین دہانی کرادی۔
تاہم بدقسمتی سے کہانی پھر وہی جوں کے توں رہ گئے۔ پھر ایک بار سی ایم صاحب شیگر پہونچے تو ہمارے سوشل میڈیا ٹیم کے پیلٹ فارم سے ایک بار پھر قراداد دوبارہ ترجمان وزیر اعلی کو تھما دیا لیکن اللہ جانے کہ وہ قراداد سی ایم صاحب تک پہونچا بھی یا نہیں۔
بہرحال معاملہ جوں کے توں پڑا رہا اور حلقہ بندی پہ ابھی بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے ایک سال پہلے گلگت بلتستان میں نئے حلقہ بندی کے حوالے سے جناب عبیداللہ صاحب کو زمہ داری سونپ دیا تھا ہنزہ نگر سمیت دیگر کئی جگہوں سے درخواست عبیداللہ صاحب کے پاس جمع ہو گئے لیکن بدقسمتی سے شیگر کی جانب سے کوئی درخواست اس وقت موصول نہیں ہوئے جس کی تصدیق عبیداللہ صاحب نے خود دبئی دورے کے دوران جب ہم نے اس بارے سوال کیا تو کیا تھا کہ فی الحال میرے پاس شیگر کی جانب سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئے۔
مختصرا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب تک گراونڈ لیول پہ ایک مضبوط تحریک اس حوالے سے نہیں چلے گی حلقہ بندی کا کوئی چانس نظر نہیں ارہا۔۔
عوام کو اس وقت اس حوالے سے اگا ہی کی ضرورت ہے کہ حلقہ بندی کے بغیر کسی بھی صورت ترقی ممکن نہیں کیونکہ جہاں تین ممبر اسمبلی کا فنڈ انا چاہیے وہاں ایک ممبر کا فنڈ ارہا ہے
اندازہ لگاو اگر ایک اور حلقہ بھی بن جاتا ہے تو جس طرح پچھلے سال ایک ارب کا ترقیاتی فنڈ ملے ہے وہ دو ارب روپے مل جاتے۔
پھر ہر حلقے میں محکموں کے دفاتر کھل جاتے عوام کو مذید سہولیات میسر اجاتے۔۔
حکومتوں نے ہمیشہ کچھ بھی سہولیات دیا ہے تو وہ ایک ڈیل کے تحت ہی دیا ہے جیسے ن لیگ نے الیکشن کی ڈیل میں ضلع دیا اب عوام کو ابھی سے اس تحریک کو تیز کرنے کی ضرورت ہے کہ اگلی بار الیکشن سے پہلے حلقہ بندی کی ڈیل ہو۔۔ علاقے میں ویسے بھی جو بھی فنڈز ائے ان میں سے ادھا تو ٹھیکدار مافیا اور محکمے کھا جاتے ہیں باقی مشکل سے آدھی رقم عوام پر خرچ ہوتا ہے ایسے میں اگر ایک کے جگہ دو ممبر اسمبلی کا فنڈ ائگا تو اور بہتر ہوگا۔۔
آخر میں شیگر کے تمام سیاسی کارکنوں سماجی شخصیات سول سوسائٹی شیگر کے تمام یوتھ مومنٹ /آرگنائزیشنز سے گزراش کرنا چاہوںگا کہ سیاسی اختلافات تو قیامت تک چلتا رہیگا لیکن اجتماعی مسائل کی حل کے لیے سب ایک ہوکر اگے نکلے تاکہ یہ حلقہ بندی جیسے اہم مسلے جلد حل ہو