news خبر خبریں نیوز landscape 1751600952808 0

جھنڈے، پروٹوکول اور مراعات… غریب کی ہڈیوں پر قائم عمارت ۔ یاسر دانیال صابری
یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک طرف غریب اپنے بچوں کے اسکول کے اخراجات کے لیے اپنے خواب بیچ رہا ہے اور دوسری طرف سرکاری محلات میں پروٹوکول کے قافلے ایندھن سے بھرے لہراتے جھنڈوں کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ وہ عوام جو دن رات خون پسینہ بہا کر ٹیکس دیتی ہے، اسی کے پیسوں سے وہ گاڑیاں خریدی جاتی ہیں جو ایوانوں کے مکینوں کی شان و شوکت کا اظہار کرتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ وہ جھنڈے جو گاڑیوں پر لہراتے ہیں، ان کی قیمت عوام کے بچوں کی بھوک سے وصول کی گئی ہے؟

ہمارے ملک میں غریب کی زندگی کسی امتحان سے کم نہیں۔ وہ دن رات دو وقت کی روٹی کے لیے محنت کرتا ہے، مگر اس کی کمائی کے بڑے حصے پر ٹیکس کی شکل میں حکومت قابض ہو جاتی ہے۔ یہ ٹیکس کہاں جاتا ہے؟ کیا یہ عوام کے لیے اسپتالوں، اسکولوں، روزگار کے مواقع اور بنیادی سہولتوں میں لگایا جاتا ہے؟ نہیں! یہ زیادہ تر ان مراعات اور پروٹوکول میں جھونک دیا جاتا ہے جس نے حکمران طبقے کو عوام سے کاٹ کر الگ ایک طبقۂ اشرافیہ میں بدل دیا ہے۔

ذرا غور کریں! ایک عام شہری کے لیے ایندھن خریدنا محال ہو چکا ہے، مگر سرکاری گاڑیوں کے قافلے بغیر کسی روک ٹوک کے شاہراہوں پر رواں دواں ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ دفاتر، مہنگے ہوٹلوں کے بل، بیرون ملک دورے، سرکاری گھروں کی تزئین و آرائش—سب کچھ عوام کے پیسوں سے ہو رہا ہے۔ لیکن بدلے میں عوام کو کیا ملا؟ بے روزگاری، مہنگائی اور بے یقینی کی زندگی۔حکمران جب عوام سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا سوال نہیں بنتا کہ وہ خود قربانی کب دیں گے؟ کیا وہ سرکاری مراعات کم کرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ پروٹوکول ختم کرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ سرکاری گاڑیوں کے بجائے عام شہریوں کی طرح عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟
یہ حقیقت تلخ ضرور ہے لیکن ناقابل تردید بھی کہ جب تک عوام کے ٹیکس کا پیسہ پروٹوکول اور مراعات کی نذر ہوتا رہے گا، ترقی کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا۔ ترقی اسی دن ممکن ہے جب حکمران طبقہ اپنے لیے وہی معیار مقرر کرے جو وہ عوام کے لیے چاہتا ہے۔
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں حکمران سادگی کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ سائیکل یا عوامی ٹرانسپورٹ میں دفتر آتے ہیں، ان کے قافلے نہیں ہوتے، ان کے لیے سڑکیں بند نہیں کی جاتیں۔ لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کے ایک قافلے کے گزرنے سے کئی گھنٹے ٹریفک جام رہتا ہے، مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں، لوگ دفتر اور اسکول جانے سے رہ جاتے ہیں۔
یہ جھنڈے جو لہراتے ہیں، یہ عوام کی خوشحالی کے ضامن بننے چاہئیں، مگر بدقسمتی سے یہ عوام کی محرومی کی علامت بن چکے ہیں۔ ہر جھنڈا جو سرکاری گاڑی پر لہراتا ہے، گویا یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ ملک صرف ایک طبقے کے لیے ہے۔
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ عوام اس رویے کے خلاف آواز بلند کریں؟ کیا وقت نہیں کہ ہم سوال کریں کہ ہمارے ٹیکس سے مراعات کیوں دی جاتی ہیں؟ کیا اب بھی ہم خاموش رہیں گے جب بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور حکمران طبقہ سرکاری خرچ پر عیاشی کر رہا ہو؟

یہ ملک سب کا ہے۔ اس کی ترقی کا حق بھی سب کو ہے۔ لیکن ترقی اسی وقت ممکن ہے جب حکمران عوام کے ٹیکس کو اپنی عیاشی کے لیے نہیں، بلکہ عوام کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ جب ایوانوں کے مکین عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور جب ہر وہ شاہانہ خرچ بند ہو جائے جو غریب کے سینے پر بوجھ ہے۔
Columns in Urdu

50% LikesVS
50% Dislikes

جھنڈے، پروٹوکول اور مراعات غریب کی ہڈیوں پر قائم عمارت۔ یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں