گلگت بلتستان کی آواز کب گونجے گی پارلیمنٹ میں؟ محمد رضا شعبانی نمل یونیورسٹی
گلگت بلتستان کی آواز کب گونجے گی پارلیمنٹ میں؟ محمد رضا شعبانی نمل یونیورسٹی
۔تعلیم و تعلم کا معاملہ تلاش و جستجو سے جڑا ہوا ہے۔ اور تلاش و جستجو ایسا مسلسل عمل ہے جو عمر کے کسی بھی حدود و قیود سے ماورا ہے۔ شہر اقتدار میرا تحصیل علم کا شہر بھی ہے۔ یہاں کی آب و ہوا اور لوگوں کے مزاج سے واقفیت پرانی ہے۔ یونیورسٹی لائف کی آج کی تاریخ اہم تاریخ ہے۔
آج کا دن خاص ہے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان کی پارلیمنٹ جانے کا موقع ملا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کےفیصلے کیے جاتے ہیں، قوانین بنائے جاتے ہیں، اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی گیلریوں اور اجلاس کے کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک شہری کے طور پر یہ تجربہ میرے لیے باعث فخر ہونا چاہیے تھا، لیکن اندری اندر ایک تلخ احساس میرے ساتھ تھا، جو کسی کانٹے کی طرح مجھے چبھتا رہا۔ میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھتا ہوں، ایک ایسا علاقہ جو قدرتی حسن، ثقافتی تنوع، اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ لیکن جب بات قومی سطح پر حقوق اور شناخت کی ہو، تو یہی علاقہ ایک متنازعہ خطہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس پارلیمنٹ میں، جہاں ملک کے ہر کونے سے نمائندے موجود تھے، میرا علاقہ اپنی نمائندگی سے محروم تھا۔
یہ احساس بار بار ذہن میں آتا رہا کہ میں یہاں کسی حیثیت سے آیا ہوں؟
نہ تو میں کبھی اس پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہوں اور نہ ہی سینیٹ میں اپنے علاقے کی آواز بلند کر سکتا ہوں۔ میرے لیے یہ جگہ ایک سیر و تفریح کے مقام سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ جو لوگ یہاں بیٹھے فیصلے کر رہے ہیں، ان میں سے شاید ہی کسی کو گلگت بلتستان کے مسائل اور محرومیوں کا مکمل ادراک ہو -گلگت بلتستان کے عوام کے لیے یہ سوال اہم ہے: کب تک ہم اس حیثیت کے بغیر رہیں گے؟ کب تک ہم اپنی آئینی شناخت اور مساوی حقوق سے محروم رہیں گے؟
یہ لمحہ محض مایوسی کا نہیں بلکہ سوچنے کا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تبدیلی کا آغاز شعور اور جدو جہد سے ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی محرومیوں پر افسوس کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ چاہے وہ آواز اٹھانے کی صورت میں ہوں، یا تعلیمی و سماجی شعور پیدا کرنے کی صورت میں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں جانے کا یہ تجربہ میرے لیے ایک یاد دہانی تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو بھی وہی حقوق اور مراعات ملنی چاہئیں جو ملک کے دیگر علاقوں کو حاصل ہیں۔ یہ محض میری آواز نہیں، بلکہ ہر اس شخص کا سوال ہے جو گلگت بلتستان کی شناخت اور مستقبل کے لیے فکرمند ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے سوچ بچار کریں اور مشترکہ جد و جہد کا آغاز کریں، تاکہ ایک دن ہمارے علاقے کی آواز بھی پارلیمنٹ کی گونج میں شامل ہو سکے۔ لیکن سوال پھر بھی ختم نہیں ہوتا کیا نمائندگی ملنے سے تمام مسائل حل ہونگے ؟ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے ذیل موجود صوبائی اسمبلی کی کیا حیثیت ہے۔ کیا یہاں کے وزیر اعلی ، گورنر وہی اختیارات رکھتا ہے جو دیگر صوبوں کے پاس ہے۔ موجود گلگت پاکستان کی اسمبلی کی آئینی حیثیت کسی حد تک ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو میرے جیسے طالب علم سے لیکر عالم، صحافی، استاد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں۔ دوستو! آئینی حیثیت ملنے سے گلگت بلتستان کا ہر باشندہ اعتماد کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ ان کے اذہان میں موجود تمام شکوک و شبہات کے سیاہ بادل ہٹ جائیں ، خوب صورت بات یہ ہے کہ آئینی محرومی اور خطے پسماندگی کے باوجود بھی جی-بی کا ہر باشندہ ملک کا اتنا وفادار ہے جتنا دوسرے صوبوں کے افراد تمام تر وسائل اور سہولیات حاصل کرنے کے باوجود بھی نہیں ہے۔ وزارت عظمی، اعلی عدالت اور پاکستان کے دستور ساز اداروں کو گلگت بلتستان کی تاریخی، ثقافتی اور سب سے بڑھ کر جغرافیائی اہمیت اور حساسیت کو مد نظر کر عوام پسند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن عوام پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے میں ناکام ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں آنے والے کل میں بہت جلدخطہ بے آئین کی آئینی محرومی کا ازالہ ہوگا۔ اور دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی تمام ادارے فعال ہونگے اور خصوصاً تعلیمی میدان میں انقلاب آئے گا۔ گلگت بلتستان میں جامعات، کالجز میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لاکر اس خطے کو حقیقی معنوں میں ترقی دے سکتے ہیں۔
Column in Urdu, When will the voice of Gilgit-Baltistan be heard in the Parliament?
(محمد رضا شعبانی) نمل یونیورسٹی اسلام آباد
razashabani26@gmail.com