طلباء تحریک، پروفیسر قیصر عباس
طلباء تحریک، پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ چند روز سے لاہور میدان جنگ بنا ہوا ہے۔لاہور گلبرگ میں پنجاب کالج کے گرلز کیمپس میں مبینہ طور پر ایک طالبہ کو کالج کے سکیورٹی گارڈ کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر تو اسی کالج کی طالبات نے احتجاج کیا ۔لیکن پھر یہ احتجاج دوسرے کیمپسز میں بھی پھیل گیا ہے ۔پہلے دن احتجاج بس لاہور تک ہی محدود رہا لیکن اب یہ احتجاج لاہور سے نکل کر دوسرے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے ۔اگرچہ پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چیف سکریٹری پنجاب کی سربراہی میں ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں سیکٹریری ہائیر ایجوکیشن اورہوم سیکٹریری پنجاب بھی شامل ہیں ۔جو اس سارے معاملے کی چھان بین کرے گی ۔یہ کمیٹی اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش کرے گی کہ آیا واقعی ایک معصوم طالبہ اس درندگی کا شکار ہوئی ہے یا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ایک دوسرا واقعہ بھی لاہور میں ہی ہوا ہے جس میں سیالکوٹ (سمبڑیال)سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ جو یونیورسٹی آف لاہور میں زیر تعلیم تھی ٫نے مبینہ طور پر گلے میں رسی ڈال کر خودکشی کی ہے ۔اب اس خود کشی کی پیچھے کیا محرکات ہیں ؟ وہ سامنے نہیں آسکے البتہ طالبہ کے والدین نے کوئی بھی قانونی کارروائی کرنے سے معزرت کر لی ہے ۔لیکن یہاں پر چند سوالات ضرور اٹھتے ہیں ۔کہ اگر لاہور والا واقعہ من گھڑت ہے تو کیا اس طرح کے واقعات آئے روز رونما نہیں ہوتے ۔ہمارے ارباب اختیار اس حوالے سے کیا اقدامات کر سکے ہیں ۔پچھلے سال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا سیکنڈل منظر عام پر آیا لیکن پھر یہ سارا معاملہ چند دن کے شور کے بعد داخل دفتر کر دیا گیا۔جن کے خلاف الزامات تھے وہ آج بھی پارلیمنٹ میں بیھٹے ہوئے ہیں ۔قصور میں اسی طرح کا واقعہ زینب نامی بچی کے ساتھ پیش آیا۔ خیر اس کیس میں قاتل پکڑا گیا اور اسے سزا بھی ہوئی لیکن اس کے پیچھے سول سوسائٹی کا دباؤ بہت زیادہ تھا ۔اب لاہور والے واقعہ میں حقیقت کیا ہے اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔کیونکہ ہمارے ہاں نظام اس طرح کا ہے کہ مجرم کو سزا دینے کی بجائے متاثرہ خاندان کو ہی دھمکایا جاتا ہے اور اس خاندان کا جینا اس طرح مشکل کر دیا جاتا ہے کہ وہ خاندان اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو بھلا کر معافی تلافی پر متفق ہو جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجرم کا تعلق ایک طاقتور طبقہ سے ہوتا ہے جب کہ متاثرہ خاندان کی پہنچ اتنی نہیں ہوتی یوں فریقین کے درمیان “جبری سمجھوتہ “کروا دیا جاتا ہے ۔ان معاملات کا ایک سب سے برا پہلو بھی ہے کہ جب اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو حزب اختلاف اسے حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔جب حزب اختلاف اس معاملے میں کود پڑتی ہے تو پھر اس طرح کے سنگین اور بھیانک معاملات حکومت اور حزب اختلاف کی آپسی جنگ کی نظر ہو جاتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ فریق کے سارے “کیس “کو خراب کر دیا جاتا ہے اور عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو کوئی اور ایشو مل جاتا ہے اور اس واقعے سے توجہ ہٹ جاتی ہے ۔لاہور والے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے حکومت مخالف جماعت پی ٹی آئی اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم اس سارے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے جب کہ پنجاب حکومت اس سارے معاملے کو ہی بے بنیاد قرار دے کر پروپیگنڈہ قرار دے رہی ہے ۔مطلب دونوں صورتوں میں متاثرہ خاندان ہی پس رہا ہے پی ٹی آئی کی ہمدردی کی وجہ سے مبینہ متاثرہ خاندان کو انصاف حاصل کرنے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف نون لیگ اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لئے اس واقعہ سے ہی انکاری ہے۔شاید حزب اختلاف نے بھی طلباء سے امید لگا لی ہے ۔کیونکہ اگر پاکستان کی تاریخ پڑھیں تو بہت سے مواقع ایسے بھی آئے جب طلباء نے حکمرانوں کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا اور پھر اس تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ حکمرانوں کو گھر جانا پڑا ۔مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کا سفر طے کروانے میں طلباء نے اہم کردار ادا کیا ۔جب ڈھاکہ میں بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دلوانے کے لئے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاج کیا تو طلباء پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں کئی طلباء جان کی بازی ہار گئے لیکن پھر ان طلباء کی برسی منائی جانے لگی یاد رہے” بنگلہ بندوں”شیخ مجیب الرحمٰن بھی بطور سٹوڈنٹ لیڈر ہی میدان سیاست میں آئے اور بعد میں ایک طاقتور سیاسی لیڈر بن کر ابھرے ۔پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف بھی تحریک کا آغاز طلباء تحریک کے ذریعے ہوا ۔جب لنڈی کوتل سے طلباء خرید وفروخت کرکے واپس آرہے تھے اور ان پر سمگلنگ کا الزام لگا ۔طلباء پر تشدد ہوا بعد میں اسی تحریک کو ذوالفقار علی بھٹو نے لیڈ کیا ۔بھٹو صاحب کے خلاف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم جمعیت طلبہ پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ۔جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں پی ایس ایف میدان عمل میں ڈٹی رہی ۔حال میں ہی سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں وہاں کے طلباء نے دہائیوں سے بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض بنگلہ دیش کی سابق خاتون وزیر اعظم کو ڈھاکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔لیکن ہمارے ہاں سب سے بڑا مسلہ ہے کہ تحریک کا آغاز سوسائٹی کا کوئی طبقہ کرتا ہے لیکن اس ساری تحریک کو عموماً حزب اختلاف” ہائی جیک “کر لیتی ہے نتیجتاً وہ مقاصد ادھورے رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے تحریک شروع کی جاتی ہے ۔اس لئے قیاس یہی کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب کالج سے چلنے والی تحریک یا تو دم توڑ دے گی یا پھر حزب اختلاف کے ہاتھوں میں یرغمال ہو کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ۔
پروفیسر قیصر عباس ۔ column in urdu, student moments
پاکستان نے ملتان ٹیسٹ میں انگلینڈ کو 152 رنز سے شکست دی، سیریز 1-1 سے برابر
حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی حکام کو خط لکھ دیا