فائنل کال ¡ پروفیسر قیصر عباس
فائنل کال ¡ پروفیسر قیصر عباس
سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ سیاست میں آج کے دوست کل کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست بن سکتے ہیں۔خان صاحب ایک مقبول سیاسی راہنما تو ہیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ خان صاحب ایک روایتی سیاست دان نہیں یا دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ چونکہ خان صاحب کرکٹ کی دنیا سے سیدھا سیاست کی دنیا میں تشریف لائے اس لئے ان کی اس طرح کی سیاسی ٹریننگ نہیں ہوئی جس طرح ہمارے ہاں سیاست دانوں کی ہوتی ہے ۔سیاست میں کبھی بھی فائنل کال نہیں ہوتی بلکہ مزاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ۔سیاست میں” کچھ لو اور کچھ دو” کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے ۔خان صاحب سے جس طرح پہلے سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں شاید 24نومبر والے لانگ مارچ کو فائنل کال کا نام دینا بھی ایک اور سیاسی غلطی ہے ۔پاکستانی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ جب اپریل 2022ءکو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوگئی اور خان صاحب نے عثمان بزدار کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا تو اس کے بعدخان صاحب نے پی ڈی ایم سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ وفاقی حکومت کو ختم کرکے عام انتخابات کا اعلان کیا جائے جس کے جواب میں پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا کہ خان صاحب پہلے دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کو ختم کریں اس کے بعد ہی ایسا ممکن ہے ۔جس پر پرویز الہٰی جو کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے٫ انہوں نے خان صاحب کو بہت سمجھایا مگر خان صاحب روایتی سیاست دان ہونے کی وجہ سے پی ڈی ایم کی سیاست کو نہ سمجھ سکے اور اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ الیکشن کمیشن 90 روز میں نئے انتخابات کروا دے گا اور میں دوبارہ سے ایوان وزیر اعظم کا مکین بن جاؤ گا ۔لیکن اس حوالے سے نہ تو سپریم کورٹ نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے یوں پنجاب میں محسن نقوی کی نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا اور وہ پنجاب پولیس جو پی ٹی آئی رہنماؤں کے پروٹوکول کے لئے گاڑیوں کے آگے تھی پنجاب میں حکومت ختم ہوتے ہی پنجاب پولیس کی گاڑیاں پیچھے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی گاڑیاں آگے لگی ہوئی تھی ۔24 نومبر کی فائنل کال کی نہ ہی ٹائمنگ درست تھی اور نہ ہی پلان ۔اس موسم میں کس طرح ممکن ہے کہ لوگ اسلام آبادمیں قیام کریں گے ؟لوگوں کو اشتعال دلا کر اکھٹا کرکے ایک جگہ جمع تو کیا جا سکتا ہے لیکن بعد میں ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایسا دیکھا بھی گیا کہ جب KPK کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ہجوم سے درخواست کی کہ میں نے نماز پڑھنے جانا تو انہیں جانے نہیں دیا گیا ۔جب ہجوم اکھٹا ہو جائے تو اس میں جذباتی لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہوش کی بجائے جوش سے کام لیتے ہیں اور ان کی تھوڑی سی بے وقوفی وجہ سے معاملات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔اس کال کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب سے بہت کم لوگ نکلے خصوصاً ایم پی ایز اور ایم این ایز بالکل نظر نہیں آئے ۔یہ بات درست ہے کہ راستے بند تھے مگر خیبر پختونخوا والوں کے لئے بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھی وہ لوگ بھی تو ساری رکاوٹیں عبور کر کے اسلام آباد تک پہنچ گئے تھے ۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے اندر ہی بشریٰ بی بی کو لیکر تحفظات کا اظہار کیاگیا تھا اس لئے سوائے عمر ایوب کے کوئی بڑا راہنما اس احتجاج میں نظر نہیں آیا ۔تحریک انصاف میں اختلافات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے پارٹی کی جنرل سیکریٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا ہے جب کہ صاحبزادہ حامد رضا نے کور کمیٹی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔اس احتجاج میں شبلی فراز ٫علی محمد خان ٫شہریار آفریدی ٫بیرسٹر علی ظفر اور دیگر اعلیٰ قیادت بھی نظر نہیں آئی ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے عام کارکنان بڑی تعداد میں نکلے ۔جس طرح اکتوبر کے مہینے میں نکلے تھے لیکن تب بھی قیادت ان کارکنان کو اکیلا چھوڑ کر” رفو چکر” ہو گئی تھی جس کا فائدہ اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس نے اٹھایا ان کارکنان پر نہ صرف پرچے کٹے بلکہ ان کو جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑی ۔اب کی دفعہ کچھ زیادہ ہوگیا ہے لیڈران اب بھی موقع پاتے ہی” پتلی گلی “سے نکل گئے جب کہ کارکنان کو نہ صرف آنسو گیس کی شیلنگ بلکہ گولیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔جب آپ لوگوں میں میدان میں کھڑا رہنے کی ہمت نہیں تو پھر کیوں غریبوں کے بچوں کو اکھٹا کرکے لاتے ہو اور ان کو یوں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہو۔بدقستمی سے یہ احتجاج بھی کئی ماؤں کی گود اور کئی جوان خواتین کے سہاگ اجاڑ گیا ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق رینجرز کے چار جوان اور پی ٹی آئی کے پانچ لوگ اس احتجاج کی نظر ہوگئے ہیں۔احتجاج کا موثر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد کا رخ کرنے کی بجائے ہر ضلع کی قیادت اپنے اپنے ضلع میں احتجاج کرے نا
نہ کہ اسلام آباد کا رخ کیا جائے ۔دوسری طرف حکومت کو بھی اس بات کااحساس کرنا چاہے کہ پی ٹی آئی اس سیاسی نظام میں ایک حقیقت ہے سیاسی اختلافات کا حل بات چیت اور مزاکرات سے نکالا جائے ۔اس احتجاج کی ناکامی پر یہ بات بھی عیاں ہو گئی ہے کہ ہمارے ہاں “طاقت کے مرکز ” کی ملی بھگت کے بغیر نہ تو کوئی احتجاج کامیاب ہو سکتا ہے نا کوئی دھرنا ۔”طاقتوروں “کی آشیر باد حاصل ہو تو دھرنا سو دن بھی مکمل کر سکتا ہے ۔اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے طاقتوروں کے نمائندے کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کو باقاعدہ” ٹی اے ڈی اے ” بھی دیا جاتا ہے ۔اس لئے خان صاحب کو سمجھنا چاہئے کہ سیاست میں کچھ بھی “حرفِ آخر” نہیں ہوتا اور کوئی کال بھی “فائنل کال “نہیں ہوتی ۔
پروفیسر قیصر عباس! column in urdu , PTI long march
ایئر سیال میں کال سنٹر ایجنٹ ، کیبن کریو اور کوآرڈینیٹر کی کشش نوکری کا بہترین موقع
یو بی ایل بنک میںنوکریوںکا اعلان
تعلیمی بورڈ: 4 ماہ بعد ریگولر سیکرٹری کی تقرری
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلانے کے لیے نیٹ ورک اسسٹنٹ خٰ ضرورت ہیں
column in urdu , PTI long march