گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت۔ کبریٰ بتول

گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت۔ کبریٰ بتول
تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آیئنہ ہوتی ہے۔ قوموں کی درخشاں مستقبل کے لیے تہذیب چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے ماہرین عمرانیاتی کے مطابق ثقافت میں علم عقیدہ ،فن،اخلاق،قانون زبان ،رسم و رواج ، قانون ،لباس کھیل کود،اٹھنا ،بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کی رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہے اگر کوی معاشرہ ثقافت کی ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو وہ معاشرہ تہذیب یافتہ معاشرہ خیال کیا جاتا ہے ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مثبت ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں دنیا میں وہی قومیں زندہ و پایندہ ہےجو تہذیب یافتہ ہیں وہی معاشرہ کامیاب ہو تا ہے جس کی ثقافت پایدار ہوتی ہے ۔وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بات اگر دھرتی ماں گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت کی کریں تو یہاں کی تہذیب و ثقافت بھی پرکشش اور جداگانہ ہے۔ فنونِ ادب ہو یا دستکاریاں نغمے ہو یا لوک گیت مختلف رنگوں زبانوں اور لباسوں میں نظر آتی ہے۔ گلگت بلتستان کا قومی کھیل پولو ہو یا نگر میں بوپھالوں اور بلتستان کے جشن نوروز اور جشن مےپھنگ ، گانچھے خپلو چقچن مسجد ہو یا شگر فورٹ ،گوپس چلاس اور ہنزہ کی التت بلتت قلعہ ہو یا سکردو کا کھرپوچو یہ سب یہاں کی تہذیب و ثقافت کا عملی نمونہ ہے۔۔ یہاں کے فن تعمیر کے عظیم شاہ کار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں سکردو کے قلعہ کھرپوچو کو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جر لڑ سے تشبیہ دی ہے ۔ خپلو چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کے اہم تاریخی اہمیت کے حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 387 میں رکھی گئی ایک غیر ملکی محقق جمیز ہارلے کی بقول یہ مسجد براعظم ایشیا کے سب سے خوبصورت مسجد ہے اس کے علاؤہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی مسجد شگر کی امبوڑک مسجد اور خپلو میں میر احمد کا آستانہ بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکا ہے ان کے علاؤہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے قلعہ ،خانقاہوں ،مساجد اور امام بارگاہیں ہیں جو کہ گلگت بلتستان کے خوبصورت تعمیرات و فنون ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کے سیاحت بھی اپنی مثال آپ ہے بلتستان کو وطن عزیز پاکستان کی ماتھے کا جومر کہا جاے تو یہ بے جانہ ہوگا برف پوش اور فلک بوس پہاڑی سرسبز و شاداب وادیاں ہیں فیروزے کی جلنوں کی طرح جوڑی ہوٸی جھیلیں ہیں جو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہے جو پہاڑ وں کی بلندیوں سے پھوٹ کر پاکستان کو سیراب کرتے ہیں۔۔

سنگے چھو یعنی دریاٸے سندھ ہی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سندھ تک سیراب کرتا ہے۔ اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی تہذیبوں میں یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کے خوبصورت ماحول اور ان کے شاہکار بھی اس علاقے کی شان ہے۔ غرض اس خطے کو خالق نے اپنے تمام تر فیاضوں سے نوازا ہے 8ہزار فٹ بلندی سے بھی زیادہ پانچ بلند ترین چوٹیاں گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمایوں کو چیلنج دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہزاروں بلکہ لاکھوں چٹانوں اور پتھروں کی سلوں پر منعقش ہے جانوروں اور مہاتما بدھ کی تصویر یں ،ہند اسٹوپاش کی نقوش بدھ مت کے آثار انقلاب زمانے کے ہاتھوں مٹ جانے کے باوجود بھی باقی ہیں اس طرح کے چٹانی نقش و نگار ماضی میں ان علاقوں میں موجود طبعی ماحول کے متعلق اہم معلومات فراہم کر تی ہے اور سکردو منٹھل میں واقع بدھا پتھر بدھ مت کے مذہبی آثار میں سے اہم ترین ورثہ ہے جو کہ سیاحوں کی دلکش اور کشش کا باعث بنتی ہے سیاحت کی فروغ کے لیے جہاں تاریخی و ثقافتی مقامات اور سیاحوں کیلئے سہولتوں کی فراہمی درکار ہوتی ہیں وہاں امن و امان بھی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے خوش قسمتی سے گلگت بلتستان کا پر امن اور پر سکون ماحول مثالی اور عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہر موسم میں گلگت بلتستان میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں حسین و دل فریب مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاحوں کی آمد ہوتی ہیں۔۔ایک تو پوری دنیا میں اور بلخصوص پاکستان میں یہ سب سے پر امن ترین علاقہ ہے دوسری بات یہاں کے لوگ بھی مہمان نواز اور پر امن ہے۔۔اگرچہ یہ خطہ اب بھی متنازعہ ہے۔ سیّاحت کی بات آگے بڑھائیں تو سیاحت دنیا میں اقتصادی ترقی اور روز گار کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسے دنیا کے مختلف ممالک میں انڈسٹری کا درجہ بھی دیا گیا ہے تہذیبی و ثقافتی اقدار تاریخی آثار کو ممالک و قوم کے روشن مستقبل کے لیے سروکار لانا دانشمند قوموں کا وطیرہ ہے وطن عزیز پاکستان میں تاریخی تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے سیاحت کے لیے موضوں ترین خطہ ہے لیکن ان سیّاحی مقامات کو دانشمندانہ طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے سیاحوں کے لئے درکار سہولتوں کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے ۔نیز گلگت بلتستان کے باشندوں کو ماضی کے تناظر میں مثبت تبدیلی لےکر اور علاقے کی ثقافتی اور تہذیبی اقدار کو محفوظ کرکےسیاحی مقاصد کو سروکار لانے کی ضرورت ہے جوگلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ اور یہ وطن عزیز پاکستان کے لیے اقتصادی ترقی کا بھی ضامن بنے گا۔ ان شاء اللہ
Column in Urdu, Gilgit baltistan culture

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں