column in urdu, Diplomatic success 0

سفارتی کامیابی ! پروفیسر قیصر عباس
تقریبآ 57 مسلم ممالک میں پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے ۔اگرچہ ہمارے معاشی حالات ابھی بہت پتلے ہیں مگر اس کے باوجود اسلامی برادری میں اگر ہماری اب بھی کوئی بات سنتا یا پھر ہماری بات کو اہمیت دیتا ہے تو اس کی وجہ ایٹمی طاقت ہونا ہی ہے ورنہ اپنے معاشرے میں ہی دیکھ لیں جو شخص معاشی زبوں حالی کا شکار ہو اس کی بات تو اپنے خاندان والے نہیں سنتے ۔دنیا چونکہ” گلوبل ولیج ” بن چکی ہے کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کے بنا ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا اس لئے دوسرے ممالک سے برادرانہ تعلقات کی ضرورت رہتی ہے ۔کچھ ممالک ایسے ہیں جن سے ہمارے مذہبی نظریات نہیں ملتے مگر ان سے ہمارے مثالی تعلقات ہیں اس کی سب سے بڑی مثال ہمسایہ ملک چین ہے جب کہ کچھ ممالک کے ساتھ ہمارے مذہبی نظریات کی ہم آہنگی موجود ہے لیکن ان سے ہمارے ماضی قریب میں بھی اتنے اچھے تعلقات نہیں رہے جس کی مثال افغانستان ہے ۔سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے ہمیشہ مثالی تعلقات رہے ہیں خصوصاً جب بھی “شریف خاندان” پاکستان میں برسر اقتدار آیا ۔بلکہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب نواز شریف کے بارے میں یہ افواہیں گردش کرتی تھی کہ میاں صاحب کو سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی پر چڑھا دیا جائے تو میاں صاحب کو ریسکیو کرنے اور ان کی گارنٹی دینے سعودی حکمران پہنچ گئے ۔ یوں میاں صاحب کو سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا اور جدہ کے “سرور پیلس ” میں ہی انہوں نے اپنے دس سالہ جلاوطنی گزاری ۔ہمارے ہاں ایک نظریہ بہت عام رہا ہے کہ مسلم لیگ نوازبطور سیاسی جماعت ” Right Wing”کی سیاست کی نمائندہ ہے جب کہ پیپلز پارٹی “Left Wing” کی سیاست کی ترجمان رہی ہے ۔اس لئے یہ رائے رہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی جماعتوں کا رجحان سعودی عرب کی طرف رہا ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا جھکاؤ ایران کی طرف رہا ہے ایران کی طرف جھکاؤ کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی رہی ہے چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم اور بے نظیر بھٹو کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو اصفہانی کا تعلق ایران سے تھا اس لئے فطری طور پر ان کی دلچسپی سعودی عرب سے زیادہ اپنے ننھیالی ملک ایران کی طرف تھی۔عمران سرکار کا نقطہ نظر دونوں پارٹیوں سے تھوڑا الگ تھا انہوں نے” ایران اور سعودی پراکسی وار “سے نکل کر سفارتی تعلقات نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوشش کی اسی وجہ سے انہوں نے ملائشیا اور ترکی کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی اسلامی ممالک کی لیڈرشپ اور چوہدراہٹ کی خواہش نے عمران خان کو ناکام کیا اگر قارئین کو یاد ہو کہ موجودہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے ایک سعودی صحافی جمال خشوگجی کے قتل کا الزام لگا تھا جسے مبینہ طور پر ترکی میں موجود سعودی عرب کے سفارت خانے میں قتل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ترکی نے اس پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو “بیک فٹ” پر جانا پڑا ۔انہیں دنوں میں عمران خان کی تجویز پر مہاتیر محمد اور طیب اردوغان کی سربراہی میں اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس بلایا گیا مگر سعودی عرب نے مبینہ طور پر اس وقت کی عمران حکومت کو دھمکی دی کہ اگر عمران خان صاحب نے اس سربراہی کانفرنس میں شرکت کی تو سعودی عرب پاکستانی اسٹیٹ بینک میں اپنا رکھا گیا ڈیپوزٹ نکال لے گیا اور یوں پاکستانی معیشت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا مزید برآں پاکستانی پاسپورٹ پر جتنے لوگ سعودی عرب میں روزگار کی غرض سے قیام پزیر ہیں ان سب کو واپس بھیج دیا جائے گا ۔شنید ہے کہ سعودی عرب کی یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران نے چاہتے ہوئے بھی اس سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کی بلکہ پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی ۔اب پاکستان میں چونکہ شریف فیملی کی حکومت ہے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب کے بھی سعودی عرب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں بلکہ آرمی چیف نے تو اپنی ملازمت کا کچھ عرصہ سعودی عرب میں بطورِ ملٹری اتاشی بھی گزارا ہے اور سننے میں یہی آیا ہے کہ قرآن پاک بھی اسی عرصے میں حفظ کیا تھا ۔مگر اس کے باوجود سعودی حکومت نے پاکستان سمیت 14 ممالک پر ویزوں کے حوالےسے پاپندی لگا دی ہے پاپندی والی فہرست میں اگرچہ بھارت کا نام بھی ہے پابندی کی وجہ اس سال حج کے حوالے سے انتظامات کرنا ہے یہ پابندی عمرے اور تجارتی ویزوں سمیت فیملی ویزوں پر بھی لگائی گئی ہے اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی حکام نے اس بارے پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ پابندی حج سے پہلے پہلے یعنی جون کے مہینے میں اٹھا لی جائے گی ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ابھی اپریل ہے یعنی پاپندی اٹھانے میں ابھی تقریباً 2 ماہ باقی ہیں ہمارے کاروباری حضرات اور دیگر لوگ ان 2 ماہ میں جس اذیت کا شکار ہونگے اس اذیت کو شاید ہمارے ارباب اختیار جانتے نہیں ہیں کیونکہ چند لوگوں ہونگے جن کے پاس” نیلا پاسپورٹ” ہوگا اور ہمارے اکثر پاکستانی کے پاس وہی “گرین پاسپورٹ” ہے ۔ہم بڑی دیر سے یہ تو سن رہے تھے کہ ٹرمپ انتظامیہ آتے ہی پاکستانیوں پر ویزوں کے حوالےسے پاپندی لگا دے گی لیکن یہ ہرگز امید نہیں تھی کہ ہمارا ایک برادر اسلامی ملک جس کی ارض مقدس کے ساتھ ہمارے دل دھڑکتے ہیں وہ ہی ہم پر ویزوں کے حوالے سے پاپندی عائد کر دے گا ۔موجودہ سرکار کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اس پاپندی کو ہٹوا کر نہ صرف پاکستانی عوام کی مشکلات ختم کروائیں بلکہ سفارتی میدان میں کامیابی بھی سمیٹ لے ۔
column in urdu, Diplomatic success

گزشتہ روز کیا کچھ ہوتا رہا، اہم خبروں کی جھلکیاں ، عمران خان کیلئے ریلیف حاصل کرنے کی کوششیں، امریکی پاکستانیوں کے وفد کی بانی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات

پی ٹی آئی کی 26 نومبر احتجاج میں‌گرفتار 88 کارکنان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور ، پولیس کے حوالہ کر دیا

50% LikesVS
50% Dislikes

سفارتی کامیابی ! پروفیسر قیصر عباس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں