column in urdu, day of pride 0

یومِ تشکر فخر کا دن، عزم کا پیغام، یاسر دانیال صابری
قسم سے، آج دل خوشی سے چھلک پڑا ہے۔ دل چاہا کہ چوم لوں اس سرزمین کو جس نے ہمیں شناخت دی، حیثیت دی، غیرت دی، اور یہ حق دیا کہ ہم سر اٹھا کر جئیں۔ اور آج تو ایسا دن ہے کہ جس میں نہ صرف سر اٹھا کر جینے کا حق تازہ ہوا بلکہ دشمن کو یہ پیغام بھی گیا کہ تم جتنے بھی بزدل، مکار، اور عیار ہو، ہم شاہینوں کی جھپٹ سے بچ نہیں سکتے۔
حالیہ دنوں میں افواجِ پاکستان نے جس بہادری، مہارت، اور غیر متزلزل عزم سے دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملایا، اس نے پوری قوم کے دل میں فخر، تشکر اور عزم کی نئی چنگاریاں روشن کر دیں۔ وہ جو بارہا سازشیں کرتے رہے، وہ جو ہمارے خلاف زہر اگلتے رہے، وہ جو ہماری سرحدوں پر میلی نگاہ ڈالتے رہے، اُنہیں ایسا منہ توڑ جواب ملا کہ اب نہ صرف اُن کے چہرے زرد ہیں بلکہ اُن کے بیانیے بھی منہ کے بل گرے ہوئے ہیں۔
یہ یومِ تشکر کسی حکومتی نوٹیفکیشن یا چھٹی کی خوشی کا نام نہیں، بلکہ یہ اس اجتماعی جذبے کا نام ہے جو ایک قوم کو اس کے محافظوں سے جوڑتا ہے۔ یہ دن اس قربانی کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو ہمارے جوان ہر لمحہ، ہر پہر، ہر سرحد پر دے رہے ہیں۔
یاد ہے وہ وقت جب دشمن کی گھناؤنی چالوں کے نتیجے میں قوم اضطراب میں مبتلا تھی؟ جب عالمی میڈیا، سفارتی حلقے، اور اندرونی عناصر اس غلط فہمی میں تھے کہ شاید پاکستان اب کمزور ہو چکا ہے؟ لیکن پاکستان کا مقدر مٹی پر نہیں لکھا گیا، یہ تو شہیدوں کے لہو سے رقم ہوتا ہے۔ اور اس بار بھی، جب دشمن نے موقع پا کر حملہ کیا، تو اسے وہ سبق ملا جو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔
ہمارے شاہینوں نے صرف دشمن کے عزائم ہی خاک میں نہیں ملائے، بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ ہم صرف باتوں کے نہیں، عمل کے لوگ ہیں۔ ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم شرافت میں مثال ہیں، مگر غیرت میں پہاڑ۔ ہم امن کے داعی ہیں، مگر جنگ کے ماہر۔ ہم صلح کے قائل ہیں، مگر دفاع کے لیے خون کا آخری قطرہ بھی حاضر ہے۔
پاکستان کی حالیہ عسکری کامیابی محض ایک جغرافیائی ردِ عمل نہیں، یہ نظریاتی فتح بھی ہے۔ یہ اس سوچ کی شکست ہے جو پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا چاہتی تھی۔ دشمن نے حملہ زمین پر کیا تھا، مگر شکست اس کے نظریے کو ہوئی۔ دشمن چاہتا تھا کہ پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا ہوں، لیکن اُس کی ہر سازش اُسی کے گلے کا پھندا بن گئی۔
یومِ تشکر مناتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سب کچھ یونہی حاصل نہیں ہوتا۔ ان لمحات کے پیچھے وہ مائیں ہوتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹے قبر کے سپرد کرتی ہیں۔ وہ باپ ہوتے ہیں جو چپ چاپ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے فخر سے کہتے ہیں “میرا بیٹا وطن پر قربان ہو گیا”۔ وہ بیویاں ہوتی ہیں جو اپنے سہاگ کے لاشے کو سلامی دیتی ہیں۔ وہ بچے ہوتے ہیں جو یتیم ہو کر بھی دعائیں کرتے ہیں میرے ابو شہید ہوئے ہیں، وہ جنت میں ہیں۔۔۔
یہ دن اُن سب کے نام ہے۔ اُن شہیدوں، غازیوں، اور اُن کے خاندانوں کے نام جن کی قربانی کی بدولت آج ہم سر بلند ہیں۔
پاکستانی عوام کے چہروں پر جو فخر کی چمک ہے، وہ محض جذباتی ردعمل نہیں، بلکہ یہ اُن کا شعوری اظہار ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ دشمن کون ہے، اور محافظ کون۔ اب یہ شعور ہمارے بیانیے کا حصہ بن چکا ہے۔ اب قوم کو صرف سیاست نہیں، ریاست عزیز ہے۔ اب ہمیں صرف روٹی نہیں، غیرت بھی درکار ہے۔ اب ہمیں صرف ترقی نہیں، بقا بھی درکار ہے۔
یومِ تشکر کو مناتے ہوئے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو وہ سبق سکھانا ہے جو ہمیں تاریخ نے سکھایا ہے: طاقتور وہی ہوتا ہے جو حق پر ہو، جو قربانی دینے کا حوصلہ رکھتا ہو، اور جو اپنے نظریے پر سمجھوتہ نہ کرے۔ ہمیں اُنہیں بتانا ہے کہ ہم اس قوم کے وارث ہیں جو لاشیں اٹھا لیتی ہے، مگر جھکتی نہیں۔
یہ دن اُن صحافیوں کے لیے بھی لمحۂ فخر ہے جو سچ لکھنے کی جرات رکھتے ہیں، اُن اساتذہ کے لیے جو بچوں کو نظریۂ پاکستان کا سبق پڑھاتے ہیں، اُن علماء کے لیے جو خطبہ جمعہ میں وطن کی عظمت کا ذکر کرتے ہیں، اُن فنکاروں کے لیے جو اپنے فن سے دشمن کا بیانیہ توڑتے ہیں، اور اُن ہر فرد کے لیے جو کسی نہ کسی انداز میں اس مقدس ارضِ پاک کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے۔

اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ شکر محض وقتی نہ ہو۔ یہ ہر روز کا طرزِ فکر بنے۔ ہر دن، ہر نماز، ہر دعا میں ہم شکر ادا کریں کہ ہم ایک آزاد ملک میں ہیں، جہاں اذانیں گونجتی ہیں، جہاں قرآن کھل کر پڑھا جاتا ہے، جہاں حجاب میں بیٹی سر اٹھا کر چلتی ہے، جہاں جھنڈا لہراتا ہے۔
اس موقع پر حکومتِ پاکستان کا یومِ تشکر کی چھٹی کا اعلان بھی ایک مستحسن قدم ہے۔ یہ نہ صرف ایک رسم کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ایک نظریاتی علامت بھی ہے۔ دنیا کو یہ پیغام دینا ضروری تھا کہ ہم اپنی فتح پر صرف نعرے نہیں لگاتے، ہم اجتماعی شکر ادا کرتے ہیں، ہم دعا کرتے ہیں، ہم اپنے شہیدوں کو یاد رکھتے ہیں، اور ہم ان لمحات کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔
یومِ تشکر کا پیغام یہ بھی ہے کہ ہم نے دشمن کو صرف سرحد پر شکست نہیں دی، ہم نے اس کے پروپیگنڈے کو بھی خاک میں ملا دیا۔ دشمن کی میڈیا وار، سائبر وار، اور نفسیاتی وار — سب ناکام ہو گئیں۔ کیونکہ جب ایک قوم متحد ہو، اور اُس کے جوان جاگ رہے ہوں، تو دنیا کی کوئی طاقت اُس پر غالب نہیں آ سکتی۔
ہمیں اب اسی جذبے کو مستقبل کا راستہ بنانا ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں، میڈیا، ادب، معیشت، اور سیاست میں بھی وہی عزم، وہی جرات، اور وہی شکر کا رویہ اپنانا ہے۔ ہمیں ہر شعبے میں اپنا جھنڈا بلند کرنا ہے — اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنا نظریہ نہ بھولیں، اپنی تاریخ نہ چھوڑیں، اور اپنے محافظوں کو فراموش نہ کریں۔
آخر میں، ہاتھ دعا کے لیے بلند ہیں
یا اللہ! پاکستان کو سلامت رکھ، اسے دشمنوں کے شر سے محفوظ فرما، اس کے جوانوں کو طاقت دے، اس کے شہیدوں کے درجات بلند فرما، اور ہمیں شکر گزار بندے بنا دے۔ آمین۔
پاکستان زندہ باد! افواجِ پاکستان پائندہ باد

50% LikesVS
50% Dislikes

یومِ تشکر فخر کا دن، عزم کا پیغام، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں