سول نا فرمانی! پروفیسر قیصر عباس
سول نا فرمانی! پروفیسر قیصر عباس
ہندوستان میں تحریک خلافت عروج پر تھی چونکہ ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ تھا اور پہلی جنگ عظیم میں یورپ کا “مرد بیمار “یعنی سلطنت عثمانیہ “ترکی” جرمنی کا اتحادی تھا ۔اب ہندوستان کا منظر نامہ یہ تھا کہ ہندوستان سے برطانوی فوج کے لئے نوجوان بھرتی کئے جاتے جو کہ اتحادی افواج کا حصہ ہوتے اور وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے برسرِ پیکار نظر آتے ۔جب اس صورت حال کا پتہ مسلمان علماء دین کو چلا تو پہلے تو انہوں نے حکومت برطانیہ سے بات چیت کرنے کے لئے ایک وفد برطانیہ بھیجا جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے مگر بدقسمتی سے یہ وفد نامراد لوٹا تو ہندوستان میں باقاعدہ ایک تحریک کا آغاز کر دیا گیا جس کا نام “تحریک خلافت”رکھا گیا جس کا اولین مقصد سلطنت عثمانیہ میں خلافت کی بحالی اورحجاز مقدس کی حفاظت تھا۔جوں جوں یہ تحریک آگے بڑی اس میں شدت بھی آئی اور حالات بھی مسلمانوں کے کنٹرول سے باہرہوگئے ۔اسی تحریک میں ایک ذیلی تحریک کا آغاز ہوا جسے” تحریک ہجرت” کا نام دیا جاتا ہے ۔ہندوستانی علماء نے ایک فتویٰ دیا کہ ہندوستان” دارالحرب” ہے اس لئے ہمیں “دارالامان”کی طرف ہجرت کر جانی چاہے اور “دارالامان “کے طور پر افغانستان کا چناؤ کیا گیا لیکن جب ہندوستان سے مہاجرین کا دباؤ بڑھا تو افغانستان نے اپنی سرحدیں بند کر دی اور یوں تحریک ہجرت بھی اپنی موت آپ مر گئی ۔اس کے بعد تحریک موالات جسے عرف عام میں سول نافرمانی کی تحریک بھی کہا جاسکتا ہے٫ کا آغاز ہوا ۔گاندھی جی کی پرزور اپیل پر سرکار سے” عدم تعاون” کی تحریک شروع ہوئی ۔مسلمان طلباء نے سکول ٫ کالجز اور یونیورسٹیز کا بائیکاٹ شروع کر دیا ۔سرکار کے تعاون سے چلنے والے تعلیمی و سماجی اداروں نے امداد لینے سے انکار کیا ۔مسلمان سرکاری ملازمین نے اپنی نوکریوں کو خیر آباد کہا ۔لیکن دوسری طرف مسلمان مخالف ہندوؤں نے انگریز سرکار سے پورا تعاون کیا ۔”چورا چوری “کے مقام پر ایک تھانے کو آگ لگی جس میں 21 پولیس والے زندہ جل گئے گاندھی جی چونکہ ” عدم تشدد “کے قائل تھے اس لئے انہوں نے اس تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیا ۔یوں جس سفر کا آغاز سرسید احمد خان نے جنگ آزادی کے بعد کیا تھا ساٹھ سال بعد مسلمان دوبارہ اسی جگہ پر آن کھڑے ہوئے ۔1946 ء کے انتخابات کے بعد محمد علی جناح نے “یوم راست اقدام “کا اعلان کیا کیونکہ کانگریس اور انگریز سرکار اپنے وعدوں سے مکر گئی تھی کابینہ مشن پلان میں یہ بات طے پائی تھی کہ یا تو اس پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا جائے یا پھر اسے مکمل طور پر رد کر دیا جائے ایسا نہیں ہو گا کہ اسے جزوی طور پر قبول کیا جائے ۔کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سے جو پارٹی بھی اسے مکمل طور پر قبول کرے گی ہندوستان کا اقتدار اسی پارٹی کو سونپا جائے گا ۔کانگریس نے اس پلان کو مسترد کیا جب کہ مسلم لیگ نے اس پلان کو قبول کر لیا اب طے کردہ اصول کے مطابق اقتدار مسلم لیگ کا حق تھا مگر برطانوی حکومت نے بدعہدی کرتے ہوئے اقتدار کانگریس کے حوالے کر دیا جس پر جولائی 1946ء کو محمد علی جناح نے” سٹریٹ پاور “کو استعمال کرنے کا سوچا اور راست اقدام کا اعلان کر دیا حالانکہ محمد علی جناح ایک جمہوری سوچ رکھنے والی شخصیت سمجھے جاتے تھے ۔ راست اقدام کی وجہ سے بنگال میں خصوصاً کولکتہ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے ہوئے حسین شہید سہروردی اور مولوی فضل الحق عوامی ہڑتال کے حق میں تھے جب کہ ہندو تاجر اور دکاندار اس کے مخالف ۔ یوں یہ احتجاج” ہندو مسلم فسادات”میں تبدیل ہو گیا اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں ۔اگرچہ آج کے حالات ماضی سے مطابقت نہیں رکھتے مگر ماضی سے سیکھا تو جا سکتا ہے ۔پاکستان میں ایک مقبول جماعت جوحزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے ٫کے بانی چیئرمین نے بھی “سول نا فرمانی” کی کال دے دی ہے اور موجودہ حکومت و اسٹبلشمنٹ کو اتوار 22دسمبر تک کی مہلت دی ہے کہ اگر مزاکرات کے ذریعہ معاملات حل نہیں کئے جائیں گے تو پھر سول نا فرمانی کی تحریک کاآغاز کیا جائے گا ۔جس میں اس بات کا بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے پاکستانی شہریوں سے اپیل کی جائے گی کی وہ زرمبادلہ پاکستان نہ بھیجیں ۔اس سے پہلے بھی یہ جماعت بانی چیئرمین کے حکم پر اس سال دو دفعہ لانگ مارچ کر چکی ہے۔ ایک اکتوبر کے مہینے میں جب اسی پارٹی کے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین احتجاجیوں کو چھوڑ کر پشاور اسمبلی میں نمودار ہوئے تھے جب کہ دوسری دفعہ 24 نومبر کی کال جسے خان صاحب نے “فائنل کال” کا نام دیا تھا ۔اس احتجاج میں خان صاحب کی بیگم بشریٰ بی بی نے بھی شرکت کی اور اسلام ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے انتظامیہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور کارکنوں کو لاوارث چھوڑ کر علی امین اور بشریٰ بی بی غائب ہوگئے ۔23دسمبر کو توشہ خانہ کے حوالے سے 190 ملین پاؤنڈ والے مقدمے کا “محفوظ فیصلہ” بھی سنایا جانا ہے اور یہ بات ممکن ہے کہ خان صاحب اور بشریٰ بی بی کو اس مقدمے میں سزا ہو جائے تحریک انصاف کی قیادت حتی کہ علیمہ خان جو کہ عمران خان کی بہن ہیں٫ انہوں نے بھی اسی بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا اسٹبلشمنٹ اور حکومت خان صاحب کے کسی دباؤ میں آسکتی ہے ؟کیونکہ امریکہ میں اگلے مہینے کی 20 تاریخ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے اور ان کی کابینہ میں متوقع رکن رچرڈ گرنیل نے “فری عمران خان” کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔جس پر جنگ نیوز نے رچرڈ گرنیل کو”ہم جنس پرست” ہونے کا طعنہ دیا ہے اور یوں ایک خاموش چپقلش امریکی متوقع ایلچی اور پاکستانی حکام کے درمیان شروع ہو گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان سول نافرمانی کی تحریک کی طرف جاتے ہیں یا اس سے پہلے ہی اسٹبلشمنٹ اور ان کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو جائے گی ۔ایک سوال اور بھی یہاں اہم ہے کہ اگر نئی آنے والی امریکی حکومت عمران خان کی رہائی کے حوالے سے دباؤ ڈالتی ہے تو کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس دباؤ کو برداشت کر پائے گی یا پھر اسے عمران خان کو رہا کرنا پڑے گا ؟ان تمام سوالات کے جوابات آنے والے چند دنوں میں مل جائیں گے ۔
پروفیسر قیصر عباس column in urdu, Civil disobedience!