امریکی کانگریس کی قرارداد ! پروفیسر قیصر عباس
امریکی کانگریس کی قرارداد ! پروفیسر قیصر عباس
سیاسیات کے طالب علم اس بات کو جانتے ہیں ہیں کہ امریکہ میں مجلس قانون ساز دو ایوانوں پر مشتمل ہے اور اسے کانگریس کہتے ہیں ۔چونکہ یہ دنیا کی سب سے مضبوط اور سپر پاور کا قانون ساز ادارہ ہے اس لئے اس ادارے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔امریکہ میں صدارتی نظام رائج ہے اور وہاں مانٹسکیو کے نظریہ Separation of Power کے نظریہ پر عمل کیا جاتا ہے سادہ اور آسان لفظوں میں اس کی تشریح یوں ممکن ہے کہ حکومت کے تینوں ادارے مقننہ ٫عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتے اور اپنا اپنا فرض ادا کرتے ہیں جس کا امریکی آئین میں تعین کیا گیا ہے۔امریکی نظام میں یہ ضروری نہیں کہ کانگریس میں جس جماعت کی اکثریت ہو ضروری نہیں کہ اسی جماعت کا امریکی صدر ہو اور بہت بار ایسا ہوا کہ امریکی صدر کسی اور جماعت کا تھا اور کانگریس میں کسی اور جماعت کی اکثریت ہوتی تھی ۔اب ظاہر ہے صدر کو بہت سے امور میں سینیٹرز کی منظوری درکار ہوتی ہے جب کہ قانون سازی میں صدر کے دستخط کے بغیر قانون ہی نہیں بن سکتا اس لئے وہاں “کچھ لو اور کچھ دو “کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے ۔جہاں کافی حد تک انتظامی معاملات میں صدر آزاد ہے وہی کانگریس بھی قانون سازی میں آزاد ہوتی ہے اور صدر کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتی ۔مذکورہ بالا تمہید کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کانگریس نے ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے تحقیقات کرائی جائے امریکی کانگریس نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کو آزادنہ ٫ منصفانہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔امریکی ایوان نمائندگان نے قرارداد 368 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کر لی جب کہ اس قراداد کی مخالفت میں 7ووٹ پڑے یاد رہے امریکہ ایوان نمائندگان 438 اراکین پر مشتمل ہے۔368 اراکین کی کسی بھی قراداد کے حق میں رائے دینا ایک معانی رکھتا ہے ۔اگرچہ قراداد کی حثیت قانونی نہیں ہوتی بلکہ اس کی حثیت اخلاقی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے اس قراداد کا ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے اور امریکہ ایوان نمائندگان کو نومبر 2020ء والے انتخابات کا طعنہ بھی دے دیا ہے۔خواجہ محمد آصف نے کہا کہ “امریکہ پہلے اپنے انتخابات شفاف بنائے۔”خواجہ صاحب نے مزید کہا کہ” فلسطینی نسل کشی کے سہولت کار نے یہ الزام لگائے ہیں ٫خواجہ آصف نے امریکی صدارتی انتخابات 2020ءکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن الیکشن جیتے تو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ۔”خواجہ صاحب نے مزید کہا کہ” پی ٹی آئی امریکہ میں بہت سرگرم ہے اور اس نے ہی پاکستان پر الزامات لگوائے ہیں٫امریکہ کو جمہوریت کے حوالے سے اپنا سوسالہ ریکارڈ دیکھنا چاہئے ویسے بھی امریکہ سپر پاور ہے اسے یہ باتیں زیب نہیں دیتی ۔”دوسری طرف ترجمان دفترخارجہ ممتاز زاہرہ بلوچ نے کہا “پاکستان انسانی حقوق ٫قانون کی حکمرانی کی اقدار کا پابند ٫قراداد غیر تعمیری ٫بے مقصد اور انتخابی عمل سے ناوافیت کا نتیجہ ہے۔”ممتاز بلوچ کا کہنا تھا” امریکی قرارداد کا وقت اور سیاق وسباق ہمارے دوطرفہ تعلقات سے موافق نہیں ٫پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت اور پانچواں بڑا جمہوری ملک ہے ٫پاکستان اپنے قومی مفاد میں قانون کی حکمرانی پر عمل کرتا ہے ۔”اگرچہ اس قرارداد کا امریکی انتظامیہ سے تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ قرارداد ایوان نمائندگان میں پاس ہوئی ہے ۔لیکن اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ بعض اوقات امریکی پارلیمنٹیرینز انتظامیہ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کریں جن سے متعلقہ ملک کے لئے مشکلات پیدا ہوں یا اس ملک پر دباؤ بڑھایا جا سکے ۔پچھلے ادوار میں ایسے واقعات بہت دفعہ ہوچکے ہیں کہ کانگریس نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے یا مالی امداد دینے پر پابندی لگا دی اور صدر امریکہ کو اس پابندی پر عمل کرنا پڑا۔اس کی سب سے بڑی مثال نوے کی دہائی میں مشہور زمانہ” پریسلر ترامیم” ہیں جن کی منظوری کے بعد پاکستان کو اسلحہ بیچنے پر پابندی لگا دی گئی تھی اس لئے پاکستانی ارباب اختیار کو اس قرارداد کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔خصوصی طور پر اگر نومبر کے مہینے میں امریکہ میں نئے صدر کا چناؤ ہوتا ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں تو پاکستانی حکمرانوں کے لئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں ۔اس لئے امریکی کانگریس کی قرارداد کو اتنا غیر سنجیدہ نہ لیا جائے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ میں کسی فرد واحد کی مرضی سے خارجہ پالیسی تشکیل نہیں پاتی بلکہ جو بھی صدر بنتا ہے الیکشن مہم کے دوران وہ اپنی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ اگلے الیکشن میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے ہمیں اس حوالے سے ایک مضبوط لابنگ کی ضرورت ہے جس کے ذریعے پاکستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑا جا سکے ۔
پروفیسر قیصر عباس!
Pakistan follows the rule of law in its national interest