گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر، کبری بتول اسوہ گرلز کالج سکردو۔
” گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر، کبری بتول اسوہ گرلز کالج سکردو۔
گلگت اور بلتستان کی بہت سی سیاسی اور دفاعی اہمیت ہے گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنے علاقوں کی سالمیت اور اس کی دفاع کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔اتنی اہمیت کے باوجود گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل ابھی تک طے نہیں ہوسکا اور گلگت بلتستان حکومتی عدم توجہ کا شکار ہے۔گلگت بلتستان کی آزادی اور پاکستان میں شمولیت کو بہت سال گزر چکے ہیں لیکن جی بی کے حوالے سے کئ سوالات کے جوابات ابھی تک نہیں مل چکے ہیں جس میں سے کچھ سوالات یہ ہیں:
1.کیا یہ علاقہ ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ ہے؟
2.کیا ان کی علیحدگی کا سبب سیاسی بنیاد ہے؟
3.کیا پاکستان میں اس علاقے کی حیثیت وہی ہے جو پاکستان کے باقی چار صوبوں کی ہے؟
گلگت بلتستان اگرچہ بہت عرصہ کشمیری ڈوگرہ راج کے باعث رہے لیکن انہیں ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ڈوگرہ راج کے کنٹرول کی بنیاد جارحانہ تسلط اور فوجی یلغار تھی جس کی حکمرانی کی بنیاد فوجی جارحیت ہو اسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اس ناجائز قبضے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ علاقہ جموں میں قائم ڈوگرہ انتظامیہ کا حصہ بن گئے بلکہ اس قبضے سے پہلے ان علاقوں میں مختلف مقامی حکمرانوں کی حکومتیں تھیں جو کہ خود مختار تھی۔
1947 میں جب پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد جیسے ہی گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت کرنے کا موقع ملا انہوں نے اپنی آزادی کو بحال کرایا اور حکومت پاکستان کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کا انتظام سنبھال لے یعنی اپنی رضا سے پاکستان میں شامل ہو جائے اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ علاقے پاکستان میں شمولیت کے باوجود بھی اپنا صحیح مقام اور حقوق سے محروم ہے۔
درست یہ ہے کہ ان علاقوں کی آئینی حیثیت کے تعین کے معاملہ کو یوں ہی نہیں چھوڑا جانا چاہیے تھا۔ان علاقوں میں پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح آئینی،قانونی،انتظامی اور عدالتی نظام قائم کرنا چاہیے کیونکہ یہ ستم ظریفی ہے کہ جس خطے کے لوگ پکار پکار کر الحاق پاکستان کی دہائی دے رہے ہوں اس کے لیے برسر پیکار رہے ہوں،بہت سی مشکلات برداشت کیے ہوں۔۔۔ اسی خطے کو پاکستان کا حصہ نہ سمجھا جائے اور اسے آئینی اور سیاسی حقوق نہ دیا جائے تو یہ ظلم کی انتہا ہے۔کشمیر کی آزادی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے لیکن گلگت بلتستان کو تو وہ شناخت دی جائے جس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ان حالات میں گلگت بلتستان کے ہر فرد کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ جی بی کی تاریخی حقائق اور مسئلہ کشمیر کے بدلتے ہوئے منظر ناموں پر گہری نظر رکھے اور مستقبل کے تعین کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے گزشتہ 58 سالوں میں ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جس جواں مردی کے ساتھ قربانیاں دی ہیں جس جذبہ اسلامی اور حب الوطنی کے ساتھ اپنے علاقے کا پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے اور آئندہ بھی ملک کے لیے قربانیاں دینے کے جذبے سے سرشار ہیں ان کا احترام کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ گلگت بلتستان سے متعلق ماضی کی مصلحت آمیز پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے حقائق پر مبنی ٹھوس حکمت عملی اپنائے تاکہ گگلت بلتستان کے مخصوص جغرافیائی منظر نامے میں یہاں کی جیو پولیٹیکل اہمیت کو قومی مفادات کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال میں لایا جاسکے۔لہذا اب وقت آگیا ہے کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے اور بہتر ہوگا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق معاملات طے کیا جائے تاکہ جموں اور کشمیر بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائے ۔۔ پاکستان ذندہ باد،گلگت بلتستان پائندہ باد۔