news خبر خبریں نیوز landscape 1752745417663 0

نسلوں کا مستقبل اور درختوں کی چھاؤںیاسر دانیال صابری
ہماری زمین ایک ماں کی طرح ہے جو سب کے لیے سانس، سایہ، اور زندگی کا سہارا ہے۔ مگر آج یہ ماں زخمی ہے، اس کی سانسیں رکتی جا رہی ہیں اور اس کی گود خشک ہو رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب انسان خود ہے جس نے ترقی کے نام پر درختوں کو کاٹ کر زمین کو بنجر کیا، جنگلات کو اجاڑا اور ہوا کو زہریلا کر دیا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر درخت نہ ہوں تو یہ زمین کیسی ویران ہو جائے گی؟ کیا ہم نے یہ سوچا کہ آنے والی نسلیں کن حالات میں سانس لیں گی؟ کیا ہمارے بچے وہ خوشبو دار ہوائیں، وہ پرندوں کی چہچہاہٹ، وہ سبزہ اور وہ پھل پھول دیکھ سکیں گے جو ہم نے بچپن میں دیکھے؟ یہ سب سوال اب ہمارے ضمیر پر دستک دے رہے ہیں اور ان کا جواب ایک ہی ہے کہ ہمیں اپنی نسلوں کے لیے درخت بچانے اور اگانے ہوں گے۔

ہمارے تعلیمی ادارے وہ جگہ ہیں جہاں انسان صرف کتابوں سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی سیکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بچوں کو محض نصاب رٹوانے کی مشینیں بن گئی ہیں۔ ان اداروں میں اخلاق، معاشرت اور قدرت کے ساتھ محبت سکھانے والے اسباق کم ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا بچہ موبائل کی اسکرین پر تو سبز باغ دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے ہاتھوں سے بیج بو کر اس کی خوشبو نہیں لے سکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں زمین سے جڑیں، اسے زندہ رکھیں اور اس کے زخموں پر مرہم رکھیں تو ہمیں تعلیمی اداروں میں ایک ایسا پروگرام لانا ہو گا جو بچوں کو درختوں اور پودوں کی اہمیت سکھائے اور ان کے ساتھ عملی تعلق قائم کرائے۔
درخت زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہیں۔ یہ ہمیں آکسیجن دیتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔ یہ ہوا کو صاف کرتے ہیں، زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں، پرندوں اور جانوروں کو پناہ دیتے ہیں اور بارشوں کے نظام کو قائم رکھتے ہیں۔ اگر یہ درخت نہ ہوں تو زمین بنجر ہو جائے، بارشیں بے موسم ہو جائیں اور زندگی کا نظام بکھر جائے۔ طلباء کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ درخت لگانا صرف ایک اچھا کام نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر ایک قرض ہے جسے ہر صورت اتارنا ہو گا۔

پودے کیسے لگائے جاتے ہیں۔ صحیح طریقہ کیا ہے، کس موسم میں کون سا پودا لگانا بہتر ہے، کون سے درخت مقامی ماحول کے لیے موزوں ہیں اور ان کی دیکھ بھال کیسے کی جاتی ہے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ پودا لگانا آسان ہے مگر اس کی حفاظت اور پرورش ذمہ داری مانگتی ہے۔ جس طرح ایک ماں بچے کو سینے سے لگا کر پروان چڑھاتی ہے، اسی طرح ایک پودے کو بھی پانی، محبت اور حفاظت چاہیے۔ یہ تربیت بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرے گی اور وہ محض پودے لگانے والے نہیں بلکہ زمین کے محافظ بنیں گے۔
۔ ہر بچہ اپنے نام سے ایک پودا لگائے، اس پر اپنا نام کا ٹیگ لگائے اور سال بھر اس کی دیکھ بھال کرے۔ ہر سال کے آخر میں اس پودے کی نشوونما کا جائزہ لیا جائے تاکہ بچے اپنی محنت کا پھل اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور فخر محسوس کریں۔ اس عمل سے نہ صرف زمین سبز ہو گی بلکہ بچوں کے دل بھی نرم اور محبت سے بھرپور ہو جائیں گے۔

ساتھ ہی طلباء کو ماحولیاتی قوانین اور پالیسیوں سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ حکومت نے درختوں اور جنگلات کے تحفظ کے لیے کیا قوانین بنائے ہیں اور ایک شہری کے طور پر ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ بچوں کو سکھایا جائے کہ اگر وہ ماحول دشمن سرگرمی دیکھیں تو اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی ان کا فرض ہے۔ اس طرح ہم ایک باشعور نسل تیار کر سکتے ہیں جو زمین کو نقصان پہنچانے والے عوامل کے سامنے خاموش تماشائی نہ بنے بلکہ عمل کرنے والی ہو۔

ایک اہم بات شعور و آگاہی کی مہمات ہونی چاہئیں۔ اسکول اور کالج کے طلباء مختلف محلوں، دیہات اور شہروں میں جا کر لوگوں کو پودے لگانے کی ترغیب دیں۔ وہ ورکشاپس، سیمینارز اور ریلیوں کے ذریعے ماحول کی حفاظت کے پیغام کو عام کریں۔ بچوں کی معصوم آوازیں جب درختوں کی اہمیت پر بات کریں گی تو بڑے بھی شرمندہ ہوں گے اور شاید ایک درخت لگانے پر مجبور ہو جائیں۔

یہ سب اقدامات نہ صرف زمین کو سرسبز کریں گے بلکہ بچوں کی شخصیت سازی میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ جب بچے اپنے ہاتھوں سے پودے لگائیں گے، اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی نشوونما دیکھیں گے تو ان میں صبر، محنت اور ذمہ داری کا جذبہ پیدا ہو گا۔ وہ سیکھیں گے کہ چھوٹے چھوٹے کام بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں اور کہ قدرت سے محبت کرنے والے ہی انسانیت سے محبت کر سکتے ہیں۔

یہ کتنا خوبصورت منظر ہو گا جب ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا کیمپس سبزہ زار بن جائے گا، جہاں درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں ہو گی، پرندے چہچہائیں گے اور بچے اپنی کامیابی کے ساتھ ساتھ اپنی لگائی ہوئی سبز زندگی پر بھی خوش ہوں گے۔ یہ ایک خواب ہے جو ہم سب مل کر حقیقت بنا سکتے ہیں اگر آج ہم نے قدم اٹھا لیا۔

اگر ہم نے یہ سب نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ سوال کریں گی کہ تم نے ہمیں ایک زہریلی فضا کیوں دی؟ تم نے ہمارے لیے درخت کیوں نہیں چھوڑے؟ تم نے زمین کو بنجر کیوں ہونے دیا؟ اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا سوائے شرمندگی کے۔ مگر اگر ہم نے آج اپنے بچوں کو درخت لگانا سکھا دیا تو کل کے بچے ہمیں دعائیں دیں گے۔

یہ میری تجویز اور تحریر پر عمل سے آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام ۔۔ کہ زمین تمہاری ماں ہے، اس کا خیال رکھو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں سکون کی سانس لیں، صاف پانی پئیں اور سرسبز و شاداب ماحول میں زندگی گزاریں تو ہمیں آج ہی اس کام کی شروعات کرنا ہو گی۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائیں اور اپنے بچوں کو بھی یہ سبق دیں کہ زمین کی بقا درختوں سے ہے۔

درخت صرف پودے نہیں بلکہ زندگی کا استعارہ ہیں۔ یہ خاموش رہ کر بھی ہمیں سانسوں کا تحفہ دیتے ہیں، یہ ہمارے وجود کی حفاظت کرتے ہیں اور زمین کو زندہ رکھتے ہیں۔ اگر ہم نے آج انہیں بچایا تو کل یہ ہمیں بچائیں گے۔ اور اگر ہم نے انہیں ختم کیا تو شاید زمین ہمیں بھی ختم کر دے۔

آئیے اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سبز انقلاب کے مراکز بنائیں۔ آئیے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ بیج بھی دیں تاکہ وہ علم کے ساتھ زمین کو بھی زندہ رکھ سکیں۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کا راستہ ہے بلکہ انسانیت کے بقا کا بھی۔ آنے والی نسلیں ہمیں یاد کریں گی کہ ہم نے ان کے لیے سایہ چھوڑا، ہوا چھوڑی اور ایک زندہ زمین چھوڑی۔ یہی انسانیت کا سب سے بڑا انعام ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

نسلوں کا مستقبل اور درختوں کی چھاؤںیاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں