شاہ خرچیاں ، پروفیسر قیصر عباس

column in urdu

شاہ خرچیاں ، پروفیسر قیصر عباس
ارض پاک میں کوئی نہ کوئی خبر دل دہلانے والی ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے ہماری معاشی حالت بہتر ہونے کی بجائے روز بروز دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔کسی دور میں تو بقول موجودہ وزیر دفاع ہم معاشی طور پر “وینٹی لیٹر” پر تھے ۔لیکن اس وقت کے بعد بھی ہماری حالت میں کوئی خاصہ فرق نہیں پڑا ۔ہمیں بین الاقوامی طور پر نئے” لارے” تو لگا دیئے جاتے ہیں لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ یا تو قرض رول اوور ہوتا ہے یا پھر پاکستانی خزانے میں ڈیپوزٹ کی مدت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔ہمارے برادر اسلامی ملک بھی اب ہمیں قرض دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ جو قرض دیا جائے گا اسکا واپس ملنا محال ہے۔بلکہ خادم اعلیٰ جو آج کل خادم پاکستان ہیں ٫کی شاہکار تقریر تو سبھی محب وطن پاکستانیوں کو یاد ہوگی جس کا عنوان تھا “میں مانگنے نہیں آیا لیکن مجبوری ہے ۔”ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قانون قدرت ہے کہ بات اسی کی سنی جاتی ہے جو معاشی طور پر مضبوط ہو چاہے ملک ہو٫ برادری ہو یا گھر ۔گھر کی مثال سامنے رکھ لیں اگر کسی بندے کے چار بیٹے ہوں تو بات اسی کی مانی جائے گی جس کے پاس روپے پیسے کی فروانی ہو گی۔اگر بین الاقوامی سطح پر امریکہ چین یا عرب ممالک کی چلتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کی معاشی حالت دیگر ملکوں سے بہتر ہے یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کی تقدیر کے فیصلے یہی چند ممالک کرتے ہیں ۔کنگلے شخص کی تو کوئی گھر نہیں سنتا کجا آپ بین الاقوامی برادری میں مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیب خالی ہے اور آپ بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کی خواہش دل میں لئے ہوئے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے اُردو کا محاورہ ہے “انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند”۔اب تازہ خبر سماعت فرمائیں ۔ایف بی آر نے ایک ہزار نئی گاڑیاں خریدنے کی درخواست کی ہے۔سینٹ کے ممبران نے ان گاڑیوں کی خریداری کو رکوانے کی کوشش کی ہے ۔سنیٹر سلیم مانڈی والا نے اس خریداری پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا” فیڈرل بورڈ آف ریونیو گاڑیاں کیوں خرید رہا ہے”؟اس پر ایف بی آر کے حکام کا جواب تھا کہ” فیلڈ آفیسرز کے لئے یہ گاڑیاں خریدی جارہی ہیں” ۔جس پر کمیٹی برائے خزانہ کے چئیرمین نے کہا کہ” کیا اس سے پہلے یہ فیلڈ آفیسرز سائیکل پر ٹیکس اکٹھا کرتے تھے ؟”وزارت خزانہ کی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس سلیم مانڈی والا کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے اربوں روپے کی 1010 گاڑیاں خریدنے کا نوٹس لیا اور اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا ۔سنیٹرز کی جانب سے برہمی کا اظہار بالکل درست ہے کیونکہ ان صاحبان اقتدار سے بہتر کون جانتا ہے کہ سرکاری خزانے سے خریدی گئی گاڑیوں کو ذاتی استعمال میں لایا جائے گا ؟ بلکہ گاڑیوں میں ڈلنے والے پٹرول کے پیسوں کی ادائیگیاں بھی سرکاری خزانے سے ہی کی جائیں گی ۔سب سے حیرت کی یہ بات ہے کہ جو صاحبان اعتراض اٹھا رہے ہیں ان کے “پیٹی بھائی”سینٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک نا تو پارلیمنٹ لاجز میں ملنے والے اپارٹمنٹ خالی کرتے ہیں اور نہ ہی اگر وزیر ہوں تو جلدگاڑیاں واپس کرتے ہیں ۔معاشی طور پر کمزور ملک میں ایک صوبے کی ممبران کی تنخواہوں میں ساڑھے چار سو گنا اضافہ کیا گیا ۔وزراء کی تنخواہوں اور سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا لیکن اس اقدام کی نہ تو قومی اسمبلی سے مذمت آئی اور نہ ہی سینٹ سے۔ اگر آپ خود اس طرح کی عیاشی کریں تو درست اور اگر کوئی اور کرے تو غلط یعنی” میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔”اگر پورے نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ اس ملک کے خزانے کو “مال غنیمت” سمجھ کر لوٹا جارہا ہے اس لوٹ مار میں سیاستدان ٫سول٫ ملٹری بیوروکریسی معزز جج صاحبان سمیت تمام ادارے شامل ہیں دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو درست ہوگا کہ “اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔”سب سے قابل رحم صورت حال یہ ہے کہ اپنی شاہ خرچیوں پر جو پیسے ہم اڑا رہے ہیں اس میں بین الاقوامی اداروں سے لیے ہوئے قرض بھی ہیں جنہیں ہم نے سود سمیت واپس بھی کرنے ہیں لیکن ہماری شاہ خرچیاں اور عیاشیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جس کا خمیازہ شاید جلد نہیں تو کچھ دیر بعد ہمیں بھگتنا پڑے ۔بقول اسد اللہ خان غالب
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی اک دن
column in urdu

پاک فوج اور ایس سی او کی طرف سے الچوڑی کے عوام کے لیے گورمنٹ ہائیر سکینڈری سکول الچوڑی میں فری لانسنگ انفارمشن ٹیکنالوجی لیباٹری کا قیام

ڈائریکٹر جنرل گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی زاکر حسین کا شگر کے سیلاب سے متاثرہ مختلف علاقوں کا دورہ

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے جی بی کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات،پی ٹی آئی سمیت گلگت بلتستان کی دیگر جماعتوں کے رہنماوں کی پی پی پی میں شمولیت

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں