ملکی حالات اور نمائندوں کا کردار, بشارت حسین شگری قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت
ملکی حالات اور نمائندوں کا کردار, بشارت حسین شگری قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
ملکی حالات اور نمائندوں کا کردار, جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم مملکت ہے جو 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا ۔1947 سے لیکر اب تک جو ہوا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہے پاکستان کے آئین کی بات کرے تو پاکستان میں اب تک 26 ویں آئین کا ترمیم ہوا ہے اس کے فوراً بعد 27 ویں آئین بھی پیش کیا گیاہے ،اسے ہمیں واضع طور پر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں آئین کی کوئی حیثیت نہیں ہے یعنی حکومت جس کی بھی پاس ہو وہ اپنے مرضی سے آئین میں ترمیم کر سکتی ہیں اور اس وقت ہر سیاسی جماعت اپنے کرسی کی فکر میں ہے ۔چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ یا پی،ٹی،ائی،ہو سب اپنے اپنے کرسی کی فکر میں ہے ،ورنہ کے ،پی،کے،کے وزیر اعلیٰ علی آمین گنڈاپور کو یہ کیا حق بنتا تھا کہ وہ ایک شخص کے لیے لوگوں کے جانوں کے ساتھ کھیلیں ۔ یہ شخص اپنے ایک ضلع کو نہیں سنبھال سکتے ہو تو کیا یہ ملک کو سنبھالے گا ؟عوام کو آگے چھوڑ کر خود کو چھپا لینا کیا یہ لیڈروں کا کام ہوسکتا ہے ؟اب تک ضلع کرم پارا چنار میں سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ابھی بھی لوگوں قتل آم کیا جارہا ہے ،لکین کے،پی،حکومت کا کوئی رول نہیں ،
لیکن آج سے کوچھ دن پہلے پاکستان کا وزیر خارجہ محسن نقوی صاحب نے ایک بیان جاری کیا ہے اس میں انھونے واضع طور بتایا ہے کہ ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر دونوں پاکستان کا آئنی شہری نہیں ہیں اس لیے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو پاکستان کے آئین پر بول نے اور احتجاج میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ،اگر ایسا کرینگے تو دہشتگرد شمار ہوگا ،
محسن نقوی صاحب کے اس بیان سے اب ہمیں لکتا ہے کہ ہمیں پاکستان کے قانون پر آواز اتھانے کوئی جواز نہیں ،لیکن اس سے آگے جی،بی کے سیاسی نمائندوں کا علاقے کے لیے کیا رول ہونا چاہیے ؟اس کے اوپر سوچنے کی ضرورت ہے۔جی،بی،کے 14 اضلاع کا الگ الگ نمایندہ موجود ہے ان سب کو اکھٹا ہوکر علاقے کے ترقی اور امن و امان، کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔جی،بی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ایک ہونا ہوگا اور ترقیافتہ کاموں بلخصوص تعلیم پر دیہان دینا ہوگا۔اس وقت جی،بی، کے دو بڑے شہر سکردو اور گلگت ہے اس میں نمائندوں کا کافی اہم رول ہے ۔لیکن آگے بھی اسی طرح،مذہب رنگ،نسل ، اور علاقہ پرستی کو چھوڑ کر سب کو ایک ہوکر کام کرناہوگا ،لیکن ان کے علاوہ باقی دور دراس اضلاع ہے جیسے ،کہ بلتستان میں شگر ،کھرمنگ ،خپلو وغیرہ ہے ان اضلاع پر دیہان دینے کی ضرورت ہے ۔شگر میں کافی عرصوں سے رجا اعظم صاحب اور عمران ندیم صاحب دونوں سیاسی نمائندگی کررہے ہیں اور پچھلے پندرہ ،بیس سالوں سے علاقے میں حکومت کررہا ہے آپ دونوں کئی بار وزیراتی عہدوں پر بھی رہچکے ہے ۔اور اس وقت راجہ اعظم صاحب وزیر صحت اور عمران ندیم صاحب ہلال احمر (ریڈکرسٹ )کے چیئرمین ہے ۔ضلع شگر میں ان نمائندوں کا کافی اہم کردار ہے جو قابل تعریف ہے ۔لیکن اس وقت علاقہ باشہ اور علاقہ برالدو دونوں ان نمائندوں سے بڑی شکایتیں کرتے ہیں ،لکین اس میں دیکھا جائے تو نمائندوں کی غلطی نہیں بلکہ عوام کی بیغیرتی ،سست اور جاہلیت کی وجہ سے ہے ۔آپ خود سوچیں عمران ندیم صاحب نے آج سے دس سال پہلے علاقہ باشہ کے گاؤں ڈوکو میں ایک پاور ہاؤس بنا یا لیکن کچھ بغیرت اور جاہل لوگوں نے اس کو چلانے سے منع کیا ،منع کر نے کا مقصد یہ تھا کہ یہ پاور ہاؤس عمران ندیم صاحب نے رکھا تھا ،خال ہی میں عمران ندیم صاحب نے ڈیمل گاؤں میں ایک پاور ہاؤس کا پروجیکٹس رکھا تھا اور اس وقت اس پروجیکٹ کی اوپر زور وشور سے کام کیا جارہا تھا لیکن علاقے کے کچھ نامونہاد خودپرست اور جاہل لوگوں نے اس پروجیکٹ کے خلاف آواز اٹھانا شروع کیا اور ڈی ،سی آفس میں تقریباً پانچ سو سے ذائد لوگوں نے اس پروجیکٹ کے خلاف درخواست دے کر اس پروجیکٹ کو روک دیا گیا۔
راجہ اعظم صاحب نے پچھلے سال ڈوگڑو پل کا افتتاح کیا تو وہاں پر بھی علاقے کے کچھ جاہلوں نے اس کو روکنے کی کوشش کی مگر علاقے کے نامور علماء کرام بلخصوص سید عباس الموسوی صاحب کے کاوشوں سے کامیابی ملی اور آج اس پل پر کام ہو رہا ہے ۔ اس سے ہمیں واضع طور پر پتہ چلتا ہے کہ علاقے میں ترقی نہ ہونہ نمائندوں کی غلطی نہیں بلکہ عوام کی جاہلیت اور خود پرستی کی وجہ سے ہے ۔
ہمیں خودپرستی اور جاہلیت سے نکل کر علاقے کے ترقی ،بلخصوص تعلیم پر دیہان دینا ہوگا ۔جب تک عوام کے اندر شعور نہیں آئینگے اور جہالت سے نہیں نکلینگے تب تک علاقے میں ترقی ممکن نہیں ہے۔ علاقے میں عوام کو اگر شعور آئیں تو کوئی بھی شخص علاقے کو ترقی سے نہیں روک سکتا ،اس لئے ہمیں شعور کی ضرورت ہے۔کوئی بھی شخص علاقے میں کام کرتا ہے تو وہ اپنے جیب سے خرچ نہیں کرتے ،وہ حکومت کے دئیے گئے فنڈز سے کام کرتے ہیں۔چاہے عمران ندیم صاحب کام کرے یا راجہ اعظم صاحب ،دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو بھی علاقے میں کام کرتا ہے اس کے لیے ضرور داد ملنی چاہیے ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے علاقے ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران ندیم صاحب ساتھ ہے وہ راجہ اعظم صاحب کے کام کو قبول نہیں کرتے ،اور وہ لوگ جو راجہ اعظم صاحب کے ساتھ ہے وہ عمران ندیم صاحب کے کئے گئے کام کو قبول نہیں کرتے ہیں یہ اس علاقے کے عوام کی سب سے بڑی بےقوفی ہیں۔ اس کی وجہ سے اب تک کوئی بھی کام سہی سے نہیں ہورہا ،اسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں موجود عوام میں ابھی تک کوئی شعور نہیں ہے ،اس لیے ہمیں اس علاقے میں آنے والے نسلوں کے لیے تعلیم پر ٹھوس اقدامات کرناہوگا
یہاں پر عوام کی غلطی پر بات کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں سیاسی نمائندے ہار چیز سے پاک ہے، سیاسی نمائندے عوام کے طرح سست اور بغیرت ہے ۔آپ مجھے بتائیں پاکستان میں ایسا علاقہ ہے جہاں انٹرنیٹ نہیں چلتا ہو،پاکستان کو چھوڑو گلگت بلتستان میں ایسا علاقہ ہے جہاں انٹرنیٹ نہیں چلتی ہو، سوائں باشہ کے، اس ترقیافتہ دورمیں بھی علاقے میں سکنل نہ ہونہ یہ سیاسی نمائندوں کے منہ پہ طمانچہ ہے ۔اس ترقیافتہ دور میں دنیا 5جی چلا رہا ہے اور باشہ جیسے علاقے اس وقت 2جی سکنل سے بھی محروم ہیں ۔باشہ جسے علاقوں کو سکنل دینے میں ابھی تک دونوں نمائندے ناکام رہے ہیں۔ہمارے نمائندوں کو باقی اضلاع کے نمائندوں کو دیکھ کر ٹھوڑی سی شرم محسوس ہونی چاہیے ۔کیونکہ باقی اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہے لیکن باشہ جیسے علاقوں میں 21 ویں صدی میں بھی سکنل نہیں ہے.
ہمارے علاقے کے سیاسی نمائندوں سے میرا سوال ہے کی آپ مجھے بتائیں کہ باشہ میں ایسا سکول ہے جس میں کسی این،جی،ایوز،کا ٹیچر یا ملازم کام نہیں کرتا ہو ،باشہ میں آج ادارے کامیاب ہے تو وہ اقراء فنڈز اور البیان فاونڈیشن جیسا اداروں کی کاوشوں سے کامیاب ہے ۔باشہ جسے علاقوں میں 21 ویں صدی میں بھی ایک ڈسپنسری نہیں ہے جس کی وجہ سے آج بھی لوگ علاج کے لیے سکردو آنے پر مجبور ہیں۔
یہ سب ہمارے نمائندوں
کے کاہلی کام منہ بولتا ثبوت ہے ۔آج کل ان کا کام کسی کے شادی پہ آنا اور اگر کسی کی گھر میں فودگی ہوا تو تعزیت کیلئے آنا ہے ،اس کے علاوہ کام کے لیے کوئی بھی نہیں آتیں ہے ۔اور یہ بے وقوف عوام اسی کو اپنا کامیابی سمجھ تے ہیں ۔
بحرحال اس سے پہلے جس نے بھی علاقے میں کام کیا ہے ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم ان کو داد بھی دیتے ہیں ۔
لیکن آگے کیا کرنا ہے یہ سوچنا ہو گا ابھی الیکشن بھی قریب ہے تو ہم سب کو پہلے کی طرح جاہلیت اور خودپرستی سے نکل کر نمائندوں کے سامنے اپنا ایجنڈے پر بات کرنی ہوگی ۔اس وقت ہم سب کا ایک ہی مؤقف ہے اس پر بات کرنا ضروری ہے
1۔۔تعلیم کے لیے ہائی اسکول اور خصوصاً کالج کا ہونا ضروری ہے
2۔۔باشہ ٹاور اس وقت کے سب سے اہم ضروریات میں سے ایک ہے ۔
3۔۔علاقے میں ڈسپنسری
4۔۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت
5۔۔دریا کے آس پاس گاؤں کے لیے پل کی تعمیر و مرمت
6..بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنا ۔
7..خواتین کےلئے تعلیم کی فراہمی اور خصوصاً سکردو میں خواتین کے لیے گرلز ہاسٹل کی تعمیر
ان سارے چیزوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔
امید ہے آپ سب اس تحریر کو غور سے پڑنگیں اور اس کے اوپر عمل کرینگے ۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو سلامت رکھے اور آگے بھی رنگ ،نسل،مزہب کو چھوڑ کے سب اتفاق سے علاقے میں ترقی و خوشحالی کے لیے اقدام اٹھائے گئیں
گورنر گلگت بلتستان کا گزشتہ روز ملوپہ میں سلائڈنگ سے پانچ قیمتی انسانی جانوں کی ضیاع پر اظہار افسوس