اشکومن کی سیاسی بلوغت اور اندھی تقلید ، نسیمؔہ شائیک
اشکومن کی سیاسی بلوغت اور اندھی تقلید ، نسیمؔہ شائیک
ہر ظلم پہ چپ رہنا شرافت نہیں ہوتی
حق مانگنا توہین عدالت نہیں ہوتی۔
شہری اور دیہی آبادی پہ میحط گلگت بلتستان غذر کا حلقہ نمبر ( 1 )اشکومن شیرقعلہ سے لیکر ہاتون داس،اشکومن ،ایمت انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پسماندہ بھی ہے۔ اس حلقے کی اہمیت اس لیے ہے کہ گلگت شہر کا ایک قابل ذکر رقبہ اس حلقے میں شامل ہے اور پسماندہ اس لیے کہ یہاں کی شہری اور دہیی آبادی دورے جدید میں بھی بنیادی اور لازمی حقوق سے محروم ہے۔یہاں کی آبادی کا شمار قدیم آبادی میں ہوتا ہے۔بنیادی طور پر ہماری سیاسی ڈھانچہ ہی تباہ ہے۔ یہ کمزور اور غیر موثر بنیادوں پر کھڑا ہے۔حلقہ نمبر 1 کے عوام سالوں سے کو لہو کے بیل کی طرح دائروں کا سفر کرتے جا رہے ہے۔اور حلقہ ہر گزارتے دن کے ساتھ مزید زوال کی جانب بڑھتا چلا جارہا ہے۔ہم نے آج تک نہ تو ان بنیادوں کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی یہ کام کھبی ہماری ترجیحات کا حصہ رہی ہے آپ اس حلقہ کے اندار کسی بھی علاقے کسی بھی کونے یا کسی اِن پڑھ کے پاس چلے جائیں یہ حلقہ ترقی کی رفتار سے غیر مطمین دکھاہی دیں گے۔حلقہ 1 میں ایمت/ اشکومن، دہایئوں قبل جہاں سے ہم نے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہماری کشتی وہیں لبِ ساحل لنگر انداز ہے۔علاقہ آج تک جمہوریت کے ثمرات سے بہوہ ور نہ ہو سکا ۔ایجوکیشن کے میدان میں کوئی ایک بھی قابل کالج اور سکول اس حلقے میں موجود نہیں ،ٹرانسپورٹ کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون سیگنل تک رساہی نہیں ،ابھی تک قدیم طرزِ زندگی اپناۓ جارہی ہے۔اور مزے کے بات یہ ہے کہ یہاں کے ممہان نواز اور سادہ لوگ اپنے ووٹوں کے زریعے جس نماہندے کو اسمبلی بیجھتے ہیں اسی سے ملنے کو ترستے ہیں۔یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے گلگت بلتستان اسمبلی میں جانے کے خواہش مند امیدوار کو الیکشن کے دنوں لوگوں کے گھروں میں جانا پڑھتا ہے ۔زیادہ نہیں کوئی اس حلقے میں بنے لنک روڑ کا ہی معاینہ کرے تو عقل حیران ہو جاتی ہے ۔فرقہ کے نام پر ملنے والے 8سے دس ہزار ووٹزز میں سے بھی چند مفاد پرست ٹولے ہی اس سہولت سے فائده اٹھاتے ہیں باقی دن رات ایک کر کے جھنڈے اٹھا اٹھا کر نعرے لگانے میں مصرف ہوتے ہیں
اس سارے معاملے میں اصل قصور وار کون ہے؟ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے مگر اس حلقے سے پیدا ہونے والی نفرتیں نظر نہیں آتی ۔مگر اس حلقے سے پیدا ہونے والی انتہاپسندی کا بار، بار پورے گلگت کو لیپٹ میں دیکھنے کے باوجود ریاستی اداروں کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔مگر صرف سوالات اٹھانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ووٹ ایک عظيم قومی زمہ داری ہے۔جسے احسن طریقے سے نبھانے سے ان کی زندگی میں بہتری آۓ گی ۔انھیں بنیادی سولیات حاصل ہونگے ۔قومی سطح پر ان کی تشخیص بحال ہو گا کوئی خط ان کے تشخیص بحال ہو گا کوئی خط ان کے حقوق عنصب نہیں کیا جا سکے گا ۔اس وقت علاقے میں مروج سیاسی نظام نہایت مایوس کن ہے۔ایسا نہیں کہ ہہاں سیاسی اور جمہوری کھیل کے تمام لوازمات بمعہ پہنچاۓ جاتے ہیں۔عوام میں اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیئے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے اور یہ فقط اُسی کو ملنا چاہیئے جو قوم کا خیر خواہ ہو ۔بردریوں اور مفادات کی بنیاد پر جب ووٹ ڈلیں گے تو پھر وہی ہو گا جو آج تک ہوتا آرہا ہے اور یہ آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ہم نے سدھرنے ہے اور اس مسئلہ کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ووٹرز کو اس کی قابلیت اور علاقے کی ترقی کے لۓ اس کی نیک نیتی کو معیار و پمیا نہ بنانا ہو گا ورنہ وقت نے سبق تو بہت سکھایا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اب کی بار بھی وہ مفاد پرست ہمیں استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاۓ اور ہمارا ووٹ ہی ہماری جانوں کا دشمن بنے۔
میرے شیرقعلہ سے ہاتون داس سے پراپر اشکومن کے عوام سے نوجوانوں سے خواتین سے بزرگوں سے یہ اپیل ہے کہ اس بار ہمارے مسائل کو اپنا مسائل سمجھ کر ووٹ دے کیونکہ ان علاقوں کے نسبت ہمیں بہت مسائل ہے ہمارے تکلیف ،نوجوانوں کا معیاری تعلیم تک رسائی نہ ہو نا ،ان تمام محرومیوں کو مد نظر رکھ کر ہمارے آواز بنے مجھے کسی سے بھی کسی قسم کی منفی تبصرہ کی امید نہیں اور منفی تبصرہ سے اجتناب کریں کیونکہ اس سے ایک اور مسئلہ سر اُٹھاتا ہے۔اپنی سماجی زندگی میں ہم لوگ زخموں پر نمک چھڑکنے کا ہنر بخوبی سکیھ جاتے ہیں ۔لیکن دکھ بانٹے کا سیلقہ نیں سکھ پاۓ ۔
column in urdu
کرسی ہے یہ تمارا جنازہ تو نہیں ہے ۔۔
کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے۔
قومی کرکٹ ٹیم پروٹیز کے خلاف سیریز کے لیے تیار، بھرپور ٹریننگ جاری
سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے سے متعلق درخواست مسترد
پشاور ہائیکورٹ: اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی راہداری ضمانت منظور، گرفتاری پر پابندی