ایجوکیشن فیلو پروگرام کا خاتمہ: مثبت منفی اثرات ، اسلم ناز
ایجوکیشن فیلو پروگرام کا خاتمہ: مثبت منفی اثرات ، اسلم ناز
وزیر اعلیٰ سیکریٹیریٹ گلگت بلتستان سے مورخہ 29 نومبر کو جاری کردہ ایک لیٹر میں گلگت بلتستان میں حال ہی میں کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ایجوکیشن فیلوز پروگرام کے خاتمے کے لئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو ہدایات دی گئی ہیں۔ اس لیٹر کے سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہی حال ہی میں بھرتی ہونے والے 1200 کے لگ بھگ نوجوان اساتذہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
گلگت بلتستان میں سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت کے سنگین مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے سابق چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے اس پروگرام کو اجراء کے لئے پلان مرتب کیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد سرکاری سکولوں میں اساتذہ کے شدید بحران پر حتی المقدور قابو پانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اساتذہ کی بھرتی اور ٹریننگ کی ذمہ داری آغا خان یونیورسٹی کو دی گئی۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر معمولی تاخیر کے بعد پچھلے چند ماہ میں اس پر بڑی تیزی سے کام ہوا اور ہزار کے لگ بھگ نوجوان اساتذہ کو تقرری کے پروانے جاری ہوئے۔ پھر ان کی اٹھارہ روزہ ٹریننگ بھی بڑے ہی تجربہ کار اور قابل ماہرین تعلیم کے ذریعے ہوئی۔ بعد ازاں حال ہی میں جن سکولوں میں پہلی فیز میں کسی نہ کسی وجہ سے اساتذہ تعینات ہونے سے رہ گئے تھے ان میں دوسرے فیز میں نومبر کے مہینے میں انٹرویو ہوئے اور انہوں بھی مختلف سکولوں میں تعینات کردیے گئے ہیں۔
یہ بارہ سو اساتذہ مختلف پرائیویٹ سکولوں سے نکل کے سرکار پر اعتماد کرکے سرکاری کنٹریکٹ دستخط کرچکے ہیں۔ اس سے پرائیویٹ سکولوں کو بھی تعلیمی سیشن کے اختتام پر ایک سنگین بحران سے گزرنا پڑا جس کا اندازہ ان سکولوں کے مالکان ہی بہتر لگا سکتے ہیں۔
خیر جب آغا خان یونیورسٹی جیسے معیاری تعلیمی ادارے نے ان کی ہائرنگ کے عمل کو مکمل کیا ہے تو اب جاکے اس پر مختلف اعتراضات لگا کر رول بیک کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بارہ سو اساتذہ کا مطلب ایک ٹیچر تیس طالب علم کے تناسب سے بھی اگر دیکھا جائے تو 36000 طلباء کے لئے اساتذہ میسر آئے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے بنیادی مسائل میں سے ایک ٹیچر سٹوڈنٹ کی بلند ترین شرح ہے۔ چھتیس ہزار طلباء کے لئے کوالیفائیڈ اور قابل اساتذہ میسر آئے ہیں۔ بیشتر کی تعلیمی قابلیت ماسٹرز اور ایم فل سے ک۔ نہیں۔ اس پروگرام کی کامیابی سے یقیناََ سرکاری طلباء بہتر تعلیم و تربیت سے مستفید ہوں گے۔
ایک اعتراض شروع سے ہی یہ آرہی ہے کہ ماسٹرز اور ایم فل والوں کو پرائمری اسکولوں میں تعینات کئے ہیں۔ اتنی بڑی ڈگری ہولڈرز کا پرایمری سکولوں میں کیا کام ہے؟ وغیرہ وغیرہ
یہ اعتراض بھی اپنی جگہ بے بنیاد ہے۔ اگر کوئی ٹیچر ایم فل ہولڈر ہے اور تدریس کے مقدس پیشے کو اپنانے کا خواہاں ہے تو یقیناً اس کا کوئی فلسفہ تدریس بھی ہوگا۔ اور حتماً اس کا فلسفہ تدریس معاشرے میں معیاری تعلیم کا فروغ ہوگا۔ اور یہ کہاں کا قانون ہے کہ ایم فل اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والا بندہ پرائمری سکول میں نہیں پڑھائے گا۔
بلکہ ان اساتذہ کی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ نئی نسل کی بنیادی معیاری تعلیم پر کام کرسکیں گے۔ یوں مستقبل کے چیلنجز کے لئے بہتر طور پر انہیں تیار کرسکیں گے۔
کمی بیشی ہر پروگرام میں رہ سکتی ہے۔ انہیں بنیاد بنا کر ہر پروگرام کے رول بیک کرنے کا کام شروع کیا جائے تو شاید ہی کوئی پروگرام آگے بڑھ سکے۔
اس پروگرام سے دور دراز کے پسماندہ ترین علاقوں کے سکولوں میں قابل اور نوجوان اساتذہ میسر آئے ہیں۔ اس پروگرام کو بمطابق مزکورہ لیٹر اگر ختم کیا جائے تو اول تو ان سکولوں میں معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے رہ جائےگا۔
دوسری بات یہ کہ ان بارہ سو اساتذہ نے مختلف پرائیویٹ اداروں کی جابز کو خیرآباد کہہ کر ایجوکیشن فیلوز پروگرام جوائن کیا ہے، یہ سب بیک وقت بے روزگار ہو جائیں گے جو کہ کسی بھی فلاحی اور جمہوری ریاست کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ان اساتذہ کی تعیناتی اور ٹریننگز کے سلسلے میں کئے گے تمام تر اخراجات اور کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
چوتھی اور سب سے خطرناک بات یہ ہوگی کہ نئی نسل کا سرکار پر سے اعتماد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے گا۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بیک جنبشِ قلم اس پروگرام کے خاتمے کے بجائے جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں ان مقامات کا کھوج لگا کر ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ جہاں میرٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہو وہاں پر میرٹ کی بحالی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ پروگرام کو خامیوں کے دور کرکے بہتر انداز میں جاری رکھا جائے تاکہ سرکاری تعلیمی اداروں زیر تعلیم طلباء و طالبات بہتر تعلیم تربیت حاصل کرسکیں۔