وادی بیسل مسائل کے دلدل میں، نثار بھٹو شگری
وادی بیسل مسائل کے دلدل میں، نثار بھٹو شگری
وادی بیسل شگر حسین نظاروں کی سرزمین ہیں۔یہ گاؤں دلفریب اور دلکش ہے۔یہاں پر کئی خوبصورت سیر گاہیں اور ایک آبشار یں بھی موجود ہیں ۔اس گاؤں میں ابلتا ہوا گرم پانی کا چشمہ بھی ہے۔اس گرم پانی سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے خوض (نہانے کی جگہ) بنائے گئے ہیں اور پائب لائن کے ذریعے صاف ستھرا گرم پانی کو خوض تک پہنچایا گیا ہے۔ یہ گرم پانی بہت سے بیماریوں کے لئے دوا ثابت ہوتا ہے مثلاً جوڑوں کا درد، موٹاپن اور ہڈیوں کا درد وغیرہ۔خاص طور پر حمل نہ ٹھہرنے والی خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مختلف جگہوں سے سیاح اور علاج کی غرض سے لوگ موسم گرما میں جنت نظیر وادی بیسل کا رخ کرتے ہیں۔ جتنایہ گاؤں دلکش ہے اس سے دگنا یہاں کے لوگوں کا اخلاق ہے۔ یہاں پر بسنے والے لوگ انتہائی مہمان نواز، خوش دل اور محنت کش لوگ ہیں۔وادی بیسل دو گاؤں (گلشن آباد اور چمن آباد) اور ایک گونڈ (ڈھنگ نیا نام غازی آباد) پر مشتمل ہے۔ گلشن آباد اور چمن آباد تقریباً 80 ،80 گھرانوں پر مشتمل ہیں اور ڈھنگ تقریباً 15 گھرانوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا حصولِ رزق کا دارومدار گائے، بھیڑ، بکریاں پالنے اور کھیتی باڑی پر مشتمل ہیں۔ قدرت نے اس وادی کو بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے جن میں بڑے بڑے برف پوش پہاڑیں اس میں ہر قسم کے ٹھنڈے چشمے رنگ برنگے پھول اس سے اچھی خبر یہاں سے تھنگ شنگ جیسے عظیم پہاڑ دیکھنے کو ملتے ہیں اور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی مقامی لوگ حاصل کر کے ان کو ادویات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جسطرح اس کے دلکش مناظر سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے اسی طرح گاؤں کے مسائل بھی حکومت کی نظروں سے کوسوں دور ہے۔ حکومتی اقدامات یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ہم کن کن مسائل کا ذکر کریں خدا شاہد ہے اس وقت اہلیان بیسل اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہر قسم کی سہولیات سے محروم ہیں۔
تعلیم کی بات کی جائے تو کسی بھی قوم وملت کی ترقی، شعور اور آگاہی کا معیار تعلیم ہے لیکن بدقسمتی سے اہلیان گلشن آباد بیسل( جوکہ 80 گھرانوں پر مشتمل ہے) تعلیم کے زیور سے محروم ہے۔ یہ محرومی ہم عوام کی طرف سے نہیں ہے ہم تو اپنے بال بچوں کی تعلیم کے لیے ترس رہے ہیں ہم اپنے پھولوں کو مستقبل میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن افسوس یہاں پر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے علم کی روشنی سے محروم ہیں۔ اقراء فنڈ کی مرہون منت سے سکول کے نام پہ تین کمرے بنائے ہیں۔اس سکول میں تقریباً 250 کے لگ بھگ بچے ہیں۔چار سال ہونے کو ہیں اس سکول میں آٹھویں کلاس تک پڑھا رہے ہیں۔اٹھویں پاس کرنے کے بعد بھت سارے بچے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہیں کیونکہ دوسرے جگہوں پر بھیج کر تعلیم حاصل کروانا بھت سارے لوگوں کی بس کی بات نہیں ہیں۔ تین کلاسوں کے کمرے ہیں باقی بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔بہت سارے بچے کلاس روم نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے آؤٹ ہیں۔250 بچوں کے لیے گورنمنٹ کی ایک ٹیچر اور ایک اقراء فنڈ کی طرف سے پانچ ٹیچرز اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ہم اقراء کی پوری ٹیم کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس گاؤں میں گورنمنٹ کی طرف سے ایک ایجوکیشن بلڈینگ کا نہ ہونا اس گاؤں کے عوام پر سراسر ناانصافی ہے۔
اگر صحت کی بات کی جائے تو یہاں پر صحت کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔سردیوں میں سڑک تین سے چار ماہ کے لیے مکمل بند ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے ڈیلیوری کیسسز اور ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کے پاس شدید تکلیف سہنے اور مرجانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کئی خواتین کو تین چار گھنٹے ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں سٹریچر پر باندھ کر طویل سفر طے کر کے سیسکو تک پھر پانچ گھنٹے ٹیوٹا گاڑی میں سفر کر کے سکردو تک پہنچایا گیا۔بھت سارے قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ اتنی بڑی ابادی میں خواتین کے لیے ایک ایم سی ایچ سنٹر کا ہونا ضروری تھا لیکن بدقسمتی سے گلشن آباد بیسل میں اب تک ایک ڈسپنسری بھی موجود نہیں ہے۔اگر ہلکا سا بخار ہو جائے تو طویل سفر طے کر کے دوسرے گاؤں میں جانا پڑتا ہے۔ ایک ڈسپنسری کا بھی نہ ہونا اس گاؤں کے عوام کے جانوں کے ساتھ کھیل کھیلنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔یہ اہلیان بیسل خاص طور پر گلشن آباد کے عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔
اگر سڑک کے حوالے سے بات کرے تو سڑک کچہ وتنگ، خستہ حال اور نالوں پر پل نہ ہونے کی وجہ سے زبوں حالت کا شکار ہے۔ اس سڑک پر صرف فور بائی فور ٹیوٹا ہی چل سکتی ہیں۔ یہ روڈ مکمل طور پر خراب اور بہت خطرناک ہے اور کسی بھی لمحہ حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے اب تک اس روڈ کی ٹھیک سے مرمت ، پختہ کاری اور وسیع کرنے کی تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔
سگنل کے حوالے سے گفتگو کرے تو نہ صرف بیسل بلکہ پورے باشہ ریجن (تقریباً 15000 ابادی پر مشتمل ریجن) کے لوگ مواصلاتی نظام سے محروم ہیں۔ اگر کسی کو اپنے رشتہ داروں، عزیزوں یا دوستوں سے رابطہ کرنا پڑے تو بہت دور (تسر) جا کر رابطہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔افسوس ہمیں اس ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے دور میں سگنل سے محروم رکھ کر حکومت گلگت بلتستان نے ہمیں سو سال پیچھے دھکیلا ہے۔اس وقت دنیا 5G چلا رہے ہیں۔
ہم اہلیان بیسل خاص طور پر گلشن آباد گورنمنٹ آف پاکستان اور گورنمنٹ آف گلگت بلتستان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ خدارا اس گاؤں کو اپنا ہی گاؤں سمجھتے ہوئے اور یہاں کی مکینوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق وانسان ہونے کے ناطے زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم نہ رکھا جائے۔ یہاں پر ایجوکیشن پر فوکس کرتے ہوئے ایک ہائی سکول ک قیام عمل میں لایا جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور امدورفت کا نظام درست کیا جائے تاکہ لوگوں کو سفر کرنے میں آسانی ہو۔ جلد از جلد بیسل میں ایک ایم سی ایچ سنٹر کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ لوگوں کو سردیوں کے دوران پریشانی اور تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
یہ وادی بیسل (گلشن آباد) کی اس جدید دور میں حقیقت پر مبنی افسوسناک کہانی ہے جو اس تلخ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور یہ حکومتی نمائندگان جو اس علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا ہماری ریکوسٹ ہے سیاسی نمائندگان سے خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں کہ خدارا اس علاقے کی ترقیاتی کاموں کے لیے آنے والا فنڈز اپنے جیبوں میں ڈالنے کے بجائے ان غیور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لیے خرچ کیا جائے
Bisel Shigar Valley is a land of beautiful sights. The village is charming and charming. There are many scenic spots and a waterfall. There is also a boiling hot water spring in this village.