بنیادی اصول. پروفیسر قیصر عباس
بنیادی اصول. پروفیسر قیصر عباس
پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اقلیتوں کے قومی دن کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “پیپلز پارٹی اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی “۔ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ” 1973 ء کا آئین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے “۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پیپلز پارٹی کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں جن پر سمجھوتہ کرنا باقی رہ گیا ہے ؟ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا نعرہ لگایا مگر چونکہ وہ خود ایک” فیوڈل لارڈ” تھے اس لئے اپنے دور کی بنائی ہوئی زرعی پالیسی کو نافظ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ۔1973ء کے آئین کے خالق صرف ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہیں بلکہ اس آئین کو بنانے میں دیگر سیاسی رہنماوں کا بھی کردار تھا جن میں مفتی محمود ٫ولی خان ٫نواب اکبر بگٹی خصوصی طور پرشامل ہیں۔اپنے نانا حضور کو متفقہ آئین کا کریڈٹ دینے والے نوجوان بلاول بھٹو شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 1973ءکے متفقہ آئین میں پہلی سات ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہی ہوئی اور مقصد صرف اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔ سب سے زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پہلی سات ترامیم صرف 4 سال کے قلیل ترین مدت میں کردی گئیں ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ1973ء کے آئین کے خالق میاں محمود علی قصوری کو ذوالفقار علی بھٹو کے آمرانہ مزاج کی وجہ سے جلد ہی پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنا پڑی ۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کچھ دیر کے لئے بیگم نصرت بھٹو کے ہاتھ میں رہی اور وہ اپنے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو اس پارٹی کی قیادت منتقل کرنا چاہتی تھی مگر بے نظیر بھٹو نے ایسا نہ ہونے دیا ۔خود کو انٹی اسٹبلشمنٹ قرار دینے والی محترمہ نے بھی اقتدار کو گلے لگانے کے لئے اسی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا جس میں اسٹبلشمنٹ میں جنرل ضیاء الحق کی باقیات موجود تھی۔یوں دوسری دفعہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پیپلز پارٹی کے اصولوں پر سمجھوتہ کیا نہ صرف بینادی منشور کو نظر انداز کیا بلکہ اقتدار کی خاطر اپنے بنیادی نظریات سے ہی روگردانی کی ۔لیکن یہ اقتدار زیادہ دیر نصیب نہ ہوا اور روالپنڈی کی ہوائیں بی بی کے اقتدار کے لئے ایسا طوفان ثابت ہوئی جنہوں نے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصہ میں ہی بی کو لاڑکانہ کا راستہ دیکھا دیا۔اسی طرح پیپلز پارٹی نے محترمہ کی قیادت میں جب دوسری دفعہ بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیا اور حکومت حاصل کی تو ایک بار پھر سے انہیں گھر کا بیھج دیا گیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان” میثاقِ جمہوریت” جیسا معاہدہ ہوا لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بی بی نے جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں شروع کردیں تاکہ اندرون خانہ کوئی ڈیل طے پا سکے ۔اپنے کیسز معاف کروانے کے لئے جنرل مشرف کے ساتھ معاہدہ ہوا اس معاہدے کے مطابق طے یہ پایا کہ جنرل مشرف NRO دیں گے اور محترمہ وزیراعظم بنے گی جب کہ پرویز مشرف بطور صدر کام کریں گے ایک آمر کے ساتھ معاہدہ طے کر کے پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر سے اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا۔محترمہ لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دی گئی اور اس بعد پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آگئی سب سے پہلے زرداری صاحب نے پارٹی سے ان عناصر کا صفایا شروع کیا جن کی محترمہ کے ساتھ قربتیں تھی یا جو بے نظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے ۔اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے” ایکسٹینشن”والی” بدعت” کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی ہوا اور کسی سیاسی حکومت نے پہلی دفعہ ملک کے سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کی ۔زرداری صاحب نے جوش خطابت میں “اینٹ سے اینٹ بجانے”کی دھمکی دی اور پھر سیاسی منظر نامے سے اس طرح غائب ہوئے جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔ کافی دیر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے اس وقت ملک عزیز میں واپس آئے جب فوجی قیادت تبدیل ہوچکی تھی ۔خلاصہ یہ ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی صرف اپنے مفادات کو مدنظر نظر رکھ کر اپنے سیاسی معاملات کو طے کر رہی ہے بنیادی اصولوں سے انحراف کرنے کی بات تو اک طرف موجودہ جماعت میں بنیادی اصول موجود ہی نہیں ۔
پروفیسر قیصر عباس!column in urdu
اسرائیل کو اسلحہ بیچنے پر برطانوی افسر مستعفی، غزہ میں جنگی جرائم پر تشویش کا اظہار