ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی علاقہ باشہ کیساتھ ظلم ہے، عارف سحاب شگری
ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی علاقہ باشہ کیساتھ ظلم ہے، عارف سحاب شگری
ٹیلی کمیونیکشن کی عدم دستیابی کے داستان قلم بند کرنے سے پہلے دور جدید میں انٹر نیٹ کی اہمیت اور اس کے استعمالات کے حوالے سے مختصر جائزہ لیتے ہیں
اس دور کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے جب زندگی سادہ ضرور تھی لیکن مشکلات سے بھری پڑی تھی۔جب سفر مختلف صورتوں سے گزر کر کئی دنوں پر محیط ہوا کرتا تھا۔اس دور کو گزرے بھی زیادہ وقت نہیں ہوا جب ہم دنیاسے بے خبر رہا کرتے تھے جب کافی عرصہ تک دور بیٹھے اپنے پیاروں کی آواز سننے کے لئے کان اور شکل دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس جایا کرتی تھیں۔
انسان نے اپنی سوچ بچار سے ان مسائل سے نکلنے کے لئے ان کا حل نکالا اور سائنس کے ذریعے ایسی ایسی ایجادات کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جس کو ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا۔․جس نے ہماری اس دنیا کو گلوبل ولیج میں بدل کر رکھ دیا۔اسی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنوں کا سفر گھنٹوں اور کھنٹوں کا سفر منٹوں پرمحیط ہوچکا ہے․اپنے پیاروں کو دیکھنے اور سننے کی آرزو ویڈیو کال اور آڈیو کال کی بدولت صرف ایک بٹن دبانے کے فاصلے پر رکھ دیا ہے۔․دنیا سے بے خبر رہنے والے اب دنیا بھر کی تمام خبریں اور معلومات انٹر نیٹ کی بدولت کسی بھی وقت حاصل کرلیتے ہیں۔
اب تواہل ذوق اپنی علم کی پیاس کو بجھانے کے لئے در بدر پھرنے کے بجائے آن لائن ایجوکیشن کے نام سے درس و تدریس کا اہتمام بھی موجود ہے اور اب تو انٹرنیٹ ایک ضرورت بھی بن چکی ہے
زندگی کے ہر شعبہ میں ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی صرف سہولت ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی بن گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ جہاں وقت کی کمی کے باعث ہمارے روز مرہ معمولات میں تبدیلی آگئی ہے وہیں کم وقت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو کئی فوائد بھی میسر آچکے ہیں جس نے تمام دنیا کو ایک نقطے پر سمٹنے پر مجبور کردیا ہے اور وہ وقت بھی آگیا ہے جوکہ ٹیکنالوجی ہم پر راج کررہے ہیں۔
اب اس جدید دور میں جہاں ٹیکنا لوجی نے ترقی کی انتہا کو چھوتے ہوے آرٹیفشل انٹیلیجنس کے دنیا میں قدم رکھ چکے ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں بے پناہ آسانیاں پیدا کی ہے۔ اور دنیامیں ایک سوفٹ انقلاب آچکا ہے۔ لیکن علاقہ باشہ ضلع شگر کا ایک ایسا بدقسمت علاقہ ہے جہاں اس اپڈیٹیڈ دور میں سنگل سگنل تک موجود نہیں ہے۔
تمام تر کاروبار اور ایجوکیشن سسٹم نہ صرف آنلائن شفٹ ہوا ہے بلکہ آرٹیفیشل انٹیلجنس کے ذریعے ان میں تیزی لائی گئی ہے۔ مگر اس علاقے کی ہزاروں کے حساب سے طلباء و طالبات ہر وقت علاقہ بدر رہنے پر مجبور ہے کیونکہ انکا اپنا آبائی علاقہ انٹرنیٹ کی بو سے کوسوں دور ہے۔
اس کے علاوہ علاقہ بھر میں انٹرنیٹ اور سگنل کی فقدان کی وجہ سے بروقت علاج اور ہسپتال تک نہ پہنچ کر ڈلیوری کے پروسز میں چند خواتین کی فودگی جبکہ سینکڑوں کے حساب سے موت کو گلے لگاتے لگاتے سکردو یا تسر پہنچ کر بچ گئے ہیں ۔ اگر ہمارے پاس سگنل ہوتے تو کسی دوسرے گاوں والے گاڑی یاتسر ہی کال کرکے ایمبولنس لایا جاسکتاتھا۔
پورے علاقے کے مائیں بہنیں احساس پروگرام اور بینظیر اینکم سپورٹ پروگرام کے پیسے کیلئے ذلت کی ٹھوکریں کھارہی ہے یہ سب حالات دیکھ کے دل خون کی انسو روتا ہے
اگر سگنل ہوتے تو ایک سنٹر باشہ میں کھولتا اور اپنے ناموس کی حفاظت ہوتی ۔
باشہ ویلی کے دور افتادہ گاوں بیسل اور ارندو سے مائیں اور بہنیں سردیوں میں جان ہتھلی پے رکھ کے پیدل تسر آنے پر مجور ہے کیونکہ برف بھاری کی وجہ سے روڈ بلاک ہوجاتی ہے اورضلعی انتظامیہ کو ماشاللہ سے شنوائی تک نہیں ہوتا ہے
دوسری جانب حکومت اور ضلعی انتظامیہ صحت کے حوالے سے باشہ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسارویہ اختیار کیا ہوا ہے پندرہ ہزار ابادی پر مشتمل اس علاقے میں ایک میڈیکل افیسر تک نہیں ہے۔
مگر لوکل آرگنائزیشن جیسے البیان فاونڈیشن بلتستان جو حالیہ دنوں میں ہاٹ ایراز جیسے برالدو اور باشہ میں بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں ہمہ وقت کوشاں ہے ان کو بھی انٹرنیٹ کی عدم موجودگی سے نقصانات کا سامناکرنا پڑھ رہا ہے۔ امامیہ میڈکس انٹر نیشنل کے تعاون سے بین باشہ میں ہسپتال بنایا ہوا ہے اور اس میں ا یک میڈیکل افیسر بھی تعینات کی ہوئی ہے۔ یہ انکی مہربانی ہےمگر انتظامیہ کو جوں کے توں تک نہیں۔
البیان فاونڈیشن کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہے تھے سات ملین کا ایک میڈیکل مشین مل رہاتھا جس کے ذریعے باشہ میں بیٹھ کر کراچی کے ماہر ڈاکٹرز سے مریضوں کی تشخیس کرواسکتے تھے۔ مگر افسوس ہمارے پاس انٹرنیٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواب پورہ نہ ہوسکا۔
سوال یہ بنتاہے کہ انٹرنیٹ یعنی اس دور میں ضرورت بن چکی ہے اسکے حصول کیلئے کیا علاقے کے باسیوں نے کوئی جدوجہد نہیں کی؟
تو ناظرین اس غیور عوام بلخصوص طلباء اور اہل علم نے ایس سی او ٹاور کی حصول کیلئے ہر در کھٹکھٹایا ہے بلکہ بہت سے ملاقاتوں میں راقم خود موجود تھا۔ مگریہ مسئلہ صرف اور صرف حکومتی سطح سے حل ہوسکتاہے کیونکہ سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے آٹی ڈیپارمنٹ جی بی کونسل کے حوالے کیاتھا بدقسمتی اور عوامی نمائندوں کی مرہون منت سے جی بی کونسل میں شگر کی کوئی نمائندگی نہیں ہےاور نہ یہ نمائندے دلچسپی لے رہے ہیں کہ کونسل والوں سے فنڈ ریلیز کروائے۔
اسی طرح آٹھ سال مکمل ہوگئے لیکن ایک کمیونیکیشن ٹاور نصب نہ ہوسکا۔ یہ اس غیور عوام کے ساتھ زیادتی کی انتہا ہے اور سیاسی نمائندوں کارنامے پر زور دار طمانچہ ہے
لکھنے لگوں تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے
لہذا عوام اب بھی یہی تقاضاکررہے ہیں کہ جلداز جلد علاقے میں انٹرنیٹ کی موجودگی کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ضلع ہیڈکواٹر میں دھرنادینے پر مجبور ہوجائنگے ۔ Column in urdu
سیکریٹری فنانس گلگت بلتستان عزیز احمد جمالی اور ان کے بیٹے حمزہ جمالی نے خسرگنگ چوٹی سر کرلی
اگرتلہ سے اگرتلہ تک کا سفر ، پروفیسر قیصر عباس