اگرتلہ سے اگرتلہ تک کا سفر ، پروفیسر قیصر عباس
اگرتلہ سے اگرتلہ تک کا سفر ، پروفیسر قیصر عباس
بنگلہ دیش جو پہلے بنگال تھا پھر کچھ عرصے کے لئے مشرقی پاکستان بنا اور 16دسمبر 1971ء میں بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشہ پرابھرا۔بنیادی طور پر یہ علاقہ آذادی کی تحریکوں کا گڑھ رہا ہے ۔ انگریزوں نے جب برصغیر پاک وہند پر اپنے قدم جمائے تو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا انگریز حکمرانوں کو اسی خطہ میں کرنا پڑا۔نواب سراج الدولہ اور میر جعفر جیسے تاریخ کے معروف کردار بھی اسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں یہ وہی میر جعفر ہے جس نے انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے اپنے ہی حکمران نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور بنگال سے انکی حکومت کو ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔آنے والوں وقتوں میں ملک وقوم سے غداری کرنے والوں کے لئے میر جعفر کے نام کو بطور استعارہ استعمال کیا جانے لگا ۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر سکندر مرزا اسی میر جعفر کی نسل سے تھے۔ بنگال کی سیاسی تاریخ جدو جہد پر مشتمل ہے شیخ حسینہ واجد کا ملک سے فرار پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات سے بنگالی تاریخ بھری پڑی ہے۔جب 1905ءمیں بنگال کو مشرقی بنگال اور مغربی بنگال یعنی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو اس تقسیم پر اس وقت کے ہندو بنگالیوں نے وہ احتجاج کیا کہ مجبوراً انگریز سرکار کو 1911ء میں بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی بنیاد بھی 1906 ء میں ڈھاکہ میں ہی رکھی گئی ۔بنگالی مسلم رہنماؤں مولوی فضل الحق ٫حسین شہید سہروردی ٫چوہدری خلیق الزماں ٫خواجہ ناظم الدین جیسے بنگالی رہنماؤں کا پاکستان بنانے میں کلیدی کردار رہا ۔لیکن جب پاکستان بن گیا تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹرائیکا “سول بیوروکریسی ٫جاگیردار اور ملٹری بیوروکریسی “نے یک باد دیگرے بنگالی وزراء اعظم کو گھر بھیجنا شروع کر دیا۔حتی کہ ملک کی 55فیصد آبادی کی مادری زبان کو سرکاری درجہ دینے سے انکار کر دیا ۔تب بنگالی طلباء نے احتجاج کیا اور تب کی ناعاقبت اندیش سیاسی قیادت نے جبر کا راستہ اختیار کرتے ہوئے تشدد کیا جس کی وجہ سے کئی طلباء جان کی بازی ہار گئے ۔اب اس کی یاد کو منانے کے لئے ہر سال ڈھاکہ یونیورسٹی میں باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا جاتاتھا ۔اسی احتجاجی تقریب سے ایک نوجوان طالب علم نے میدان سیاست میں قدم رکھا جیسے لوگوں نے بعد میں شیخ مجیب الرحمان کے نام سے جانا ۔حیرت انگیز طور پر یہ نوجوان اس وقت کے عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوگیا اور بہت جلداس کا شمار عوامی لیگ کی سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔1958ء کے مارشل لاء کے بعد صدارتی انتخابات میں مغربی پاکستان میں ایوب خان نے اکثریت حاصل کی جب کہ بنگالیوں نے آمریت کا ساتھ دینے کی بجائے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔ایوب خان کے دور میں ہی مجیب الرحمٰن پر پاکستان مخالف سازش کا الزام لگایا گیا جس کو تاریخ نے” اگرتلہ سازش” کا نام دیا شیخ صاحب کو گرفتار کر لیا گیا مگر اس کے باوجود شیخ مجیب اپنے مشہور زمانہ” چھ نکات ” پر ڈٹے رہے 1970 ء کے انتخابات عوامی لیگ نے اسی چھ نکات کی بنیاد پر لڑے اور مشرقی بنگال میں کلین سویپ کیا ۔لیکن اس وقت کے آمر جنرل محمد یحییٰ خان کی اقتدار کی ہوس اور ذوالفقار علی بھٹو کی شراکت اقتدار کی خواہش نے پاکستان دو لخت کر دیا۔یوں مشرقی پاکستان کہلانے والا ملک اب بنگلہ دیش کہلانے لگا۔لیکن جب مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش میں” ون مین شو “کا مظاہرہ کیا اور باقی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا تو آزادی کے چار سال بعد بانی بنگلہ دیش “بنگلہ بندو”کو اگست 1975ء میں ان کی رہائش گاہ دھان منڈی میں خاندان سمیت قتل کر دیا گیا ۔شیخ مجیب الرحمن کی صرف دو بیٹیاں ریحانہ شیخ اور حسینہ شیخ جو تعلیم کی غرض سے اس وقت جرمنی میں موجود تھیں زندہ بچی ۔بعد میں یہی حسینہ واجد مسلمان ممالک کی دوسری خاتون وزیراعظم بنی ۔اب 2008ء سے شیخ حسینہ واجد مسلسل اقتدار میں تھی اگرچہ بنگلہ دیش نے اس دور میں معاشی ترقی کے مراحل بھی طے کئے مگر خاتون وزیراعظم کے آمرانہ رویہ کی وجہ مخالفین سختیاں برداشت کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح اپنے مخالفین کو دیوار سے لگا دیا خصوصاً جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت اور کارکنوں پر بنگلہ دیش کی آزادی میں روڑے اٹکانے کے الزامات کر عدالتوں سے سخت سزائیں دلوائی ۔اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو مسلسل جیل میں رکھا ۔ 2024ء میں مسلسل چھوتی دفعہ وزیر اعظم بنگلہ دیش بنی مگر اپنی انتقامی روش کو جاری رکھا ۔عوامی لیگ کے کارکنوں کو نوازنے کے لئے نوکریوں کے اس کوٹہ سسٹم کو برقرار رکھا جس کا آغاز شیخ مجیب الرحمٰن نے کیا تھا اس کوٹہ سسٹم کے مطابق ان خاندانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دی جاتی تھی جن خاندانوں نے بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لیا تھا یا جان سے گئے تھے ۔دراصل سرکاری سطح پر اپنی جماعت عوامی لیگ کی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے یہ لائحہ عمل اپنا گیا تھا جس کو شیخ حسینہ واجد نے برقرار رکھا ۔گزشتہ ماہ سے طالب علموں نے اس کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج شروع کیا جسے طاقت کی بل بوتے پر کچلنے کی کوشش کی گئی مگر جس قدرطاقت کا استعمال کیا گیا اسی قدر اس احتجاج میں شدت آتی گئی پہلے پہل تو یہ احتجاج کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لئے کیا گیا اس کوٹے کی ریشو 30 فیصد تھی .لیکن جوں جوں احتجاج کے نتیجے میں ہلاکتوں میں اضافہ ہوا یہ احتجاج کوٹہ سسٹم سے آگے نکل کر شیخ حسینہ واجد کے استعفاء کی جانب چل نکلا احتجاج نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ بنگلہ دیشی آرمی چیف نے وزیراعظم کو ملک چھوڑنے اور استعفاء دینے کے لئے 45منٹ کا وقت دیا لیکن شیخ حسینہ واجد کو اپنی تقریر ریکارڈ کروانے کا وقت بھی نہ ملا یوں بنگلہ دیشی وزیراعظم کو نہ صرف استعفاء دینا پڑا بلکہ اپنے ہمسائے ملک بھارت میں پناہ لینی پڑی ان کے فرار کے بعدان کا پہلا پڑاؤ مغربی بنگال کا شہر اگرتلہ تھا ۔شیخ خاندان کی سیاست کو عروج اسی اگرتلہ شہر سے ملا جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن پاکستان کی سیاست کے ایک بڑے کھلاڑی بن کر سامنے آئے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ شیخ خاندان کا اگرتلہ سے شروع ہونے والا سیاسی سفر اگرتلہ میں پہنچ کر اختتام پزیر ہوا۔ column in urdu
پروفیسر قیصر عباس!