ے مثال قربانیاں! پروفیسر قیصر عباس۔
بے مثال قربانیاں! پروفیسر قیصر عباس۔
دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔کوئی بھی ریاست دوسری ریاستوں کے تعاون کے بنا ترقی نہیں کر سکتی۔ممالک کے آپس کے تعلقات کو بین الاقوامی تعلقات کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے۔ممالک کے درمیان تعلقات قومی مفادات کے تحت فروغ پاتے ہیں۔ہر ملک اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتا ہے۔قومی مفادات کی وجہ سے ہی بین الاقوامی سطح پر دوستیاں اور دشمنیاں پروان چڑھتی ہیں۔یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ بین الاقومی سطح پر نہ مستقل دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی بلکہ حالات اور قومی مفاد کے تحت دوستیاں دشمنی میں اور دشمنیاں دوستی میں بدلتی رہتیں ہیں۔آپ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کو سامنے رکھ لیں اس ملک کے مفادات کے زیر اثر خارجہ پالیسی بنائی جائے گی ۔یہ اعزاز صرف ملک خداداد کو حاصل ہے کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے قومی مفادات کے مطابق تشکیل دینے کی بجاِئے سامراج کو خوش کر نے کے لئے بنائیں ہیں۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہماری خارجہ پالیسی ” بلاکی سیاست “کی نظر ہوگئی۔اس وقت دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہوچکی تھی ایک” شوسلسٹ بلاک” جس کی قیادت روس کر رہا تھا جبکہ دوسرا “کیپٹلسٹ بلاک “جس کی راہنمائی امریکہ بہادر کر رہا تھا۔ان دو بڑوں کی لڑائی میں ہم نے سینگ پھنسا لئے اور بعد میں ملک دولخت کروا بیھٹے۔چاہئیے تو یہ تھا کہ دونوں بلاکس کے ساتھ ایک توازن رکھا جاتا اور ملکی مفادات کو ترجیح دی جاتی مگر ہمارے ارباب اختیار نے مغربی بلاک میں شمولیت اختیار کی جس کا خمیازہ ہماری ریاست کو بھگتنا پڑا۔ہمارے مقابلے میں ہمسایہ ملک بھارت نے دونوں طاقتوں کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا بلکہ بہت عرصے تک “غیر جانبداریت” کا لبادہ بھی اوڑھے رکھااور امریکہ اور روس سے بیک وقت اسلحہ بھی حاصل کرتا رہا۔پاکستان دولخت ہونے کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا اور پھر سے افغان جہاد میں حصہ لے لیا نتیجہ ، ہمارے ہاں منشیات اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔مہاجرین کا بوجھ ہمارے ناتواں کندھوں پر لاد دیا گیا ۔دہشت گردی اور بم دھماکوں نے ہمارا امن وسکون تباہ برباد کر کے رکھ دیا۔طالبان کی حکومت بنانے میں بھی ہمارا کردار تھا اور پھر اس کو ختم کروانے میں بھی ہم نے کردار ادا کیا۔9/11 کے بعد ہم دہشت گردی کے خلاف “فرنٹ لائن اتحادی” بن کے سامنے آئے ۔جس کے نتیجے میں ہم نے اپنے انفراسٹکچر کو تباہ کروا لیا ۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید کروا لئے۔مگر جن کے لئے سب کچھ کیا انہوں نے بھی ہماری قربانیوں کی قدر نہیں کی بقول ساغر صدیقی
میں نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو۔ ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں۔
اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران امریکہ کے صدر اور بھارتی وزیراعظم نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے ۔پاکستان اپنی سرزمین انتہاپسند حملوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے۔مشترکہ اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد پراکسیز کے استعال کی شدید مزمت کی اور القائدہ ،داعش،لشکر طیبہ ،جیش محمد اور حزب المجایدین سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کاروائی کا مطالبہ کیا۔مشترکہ اعلامیہ پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ اعلامیہ سے قبل واشنگٹن یا جوبائیڈن کو سوچنا چاہئے تھا کہ مودی کے ہاتھ آج بھی مسلمانوں ،عیسائیوں اور سکھوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔بیان میں وزیر دفاع نے کہا واشنگٹن نے ہی گجرات دہشتگردی میں مودی کاویزہ بند کیا تھا۔امریکہ کواعلامیہ جاری کرتے ہوئے کشمیریوں پر مظالم کیوں یاد نہ آئے؟بھارت میں بھارتی وزیر اعظم اور وزراء دہشت گردی کو فروغ دے رہےہیں ۔امریکہ نے 40سال میں دوناکام مداخلتیں کی ہیں۔پاکستان آج بھی امریکی ورثے میں چھوڑی دہشتگردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔خطے میں دہشت گردی کا بیج بونے میں امریکہ کا بھی بڑا کردار ہے۔امریکہ اقتصادی مفادات کی خاطر بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر انداز کر رہا ہے۔خواجہ صاحب شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ اگر بھارتی وزیراعظم کی اتنی آو بھگت کی جارہی ہےاور بین الاقوامی سطح پر ہمارا موقف سننے کے لئے کوئی تیار نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اس وقت ناکامی سے دوچار ہے جب کہ اسی میدان میں بھارت ہم سے بہت آگے ہے۔دوسری بات یہ وہی مودی ہے جسے خواجہ صاحب کے سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی نواسی کی شادی میں دعوت دی تھی اور مودی بنا ویزہ کے جاتی عمرہ پہنچ گئے تھے۔اور رہ گئی امریکہ کی بات تو تو خواجہ صاحب امریکی حمایت کو وانٹیلٹر قرار دے چکے ہیں ۔جس کے بنا پاکستان کاوجود اللہ نہ کرے خطرے میں پڑجائے گا۔وزارت خارجہ کی ترجمان محترمہ ممتاز زہرہ بلوچ نے امریکہ ،بھارت پاکستان مخالف مشترکہ بیان کو یکطرفہ اور غیر ضروری قرار اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔انہوں نے مزید فرمایا “بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منتقلی پرگہری تشویش ہے ،پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں ہیں۔محترمہ سے بڑے ادب سے گزارش ہے کہ سامراج کبھی کسی ترقی پزیر ملک کی قربانیوں کو سامنے رکھ کر فیصلے نہیں کرتا بلکہ اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دیتا ہے۔