یوم آزادی گلگت بلتستان- گلگت بلتستان کے باشندے آج اپنا 74 واں یوم آزادی انتہاٸی جوش و خروش سے منا رہے ہیں
یوم آزادی گلگت بلتستان ۔۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے باشندے آج اپنا 74 واں یوم آزادی انتہاٸی جوش و خروش سے منا رہے ہیں ۔لیکن اس سرزمین کے باشدے آج بھی حقوق سے محروم نظر آتے ہیں ۔اگر ہم گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ برطانوی سامراج کے دوران برصخیر میں شاہی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھی ۔اور اس خطے پر ہندو راجا ہری سنگھ کی حکومت قاٸم تھی ۔یہ بات واضح عیاں ہے کہ یہ علاقہ مملکت خدادا پاکستان کے ایک سال بعد آزاد وا اور اس میں پاکستان کا کوٸی کردار نہیں ہے ۔کہتے ہیں کہ یہاں کے مقامی لیڈر علی شیرخان انچن کے قیادت میں سرزمین بے آیٸن کے باسی ہندو ڈوگرا راج کا مقابلہ کرنے نکلی اور لداخ موجودہ ہندوستان کے علاقے تک کو فتح کرنے میں کامیاب ہوۓ اور یہ علاقہ ایک آزاد خطہ کہلانے لگا ۔اس وقت اس خطے کو شمالی علاقہ جات کے نام سے منصوب کیا جاتا تھا ۔تاریخ بلتستان کی کتاب سے اس بات کا بھی ثبوت ملے ہیں کہ گلگت پہلے آزاد ہوا تھا اور بلتستان کچھ مہینے بعد آزاد ہوا تھا ۔تا ہم اب یہ خطہ گلگت بلتستان کہلاتا ہے سو دونوں خطے کے باشندے ایک ہی دن آزادی کا دن مناتے ہیں ۔اس خطے کی آزادی کے بعد یہاں کے مقامی افراد کے سربراہوں نے پاکستان کی دارالحکومت کراچی میں اس وقت کے حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ کراچی کہلاتا ہے تا ہم موجودہ دور میں کچھ نوجان اس معاہدے سے نالاں نظر آتے ہیں ۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہی معاہدہ بنیادی طور پر اس علاقے میں حقوق سے محرومی کا سامان بنا ۔اس معاہدے میں کہا گیا کہ بلتستان کے باشندوں نے اپنی مدد آپ ہندو سامراج سے نجات حاصل کی ہے اور یہ اپنی مرضی و خوشی کے تحت ریاست پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ خطہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے سو پاکستان اس علاقے پر اپنا قبضہ جماٸے گی مگر اسے پاکستان کا مکمل صوبہ ہھیں سمجھا جاٸے گا ۔یہ بھی کہا گیا کہ یہ علاقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے ۔اس معاہدے کی رو سے یہ بھی کہی گٸی کہ اس علاقے میں حکومت پاکستان ٣٦ بنیادی اشیا پر سبسڈی یہاں کے عوام کو دے گی ۔لیکن افسوس آج تک اس علاقے کے باشندے صرف رسمی آزادی کی جشن مناتے نظر آتے ہیں اور ریاست پاکستان کبھی اس علاقے کو اپنا حصہ تسلیم کرتی ہے اور کبھی اس کو متنازعہ کہ کر حقوق کے مطالبات ٹال دیتی ہے ۔تا ہم اب بدلتے ہوۓ عالمی منظر نامے اور مفادات نے پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک ایسے دوراہی پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے شاید واپسی کا اب کوٸی راستہ نظر نہیں آتا ۔اس علاقے کے نوجوان اس بات سے لاتعلق ہے اور وہ اس بات پر خوش نظر آتے ہیں کہ وہ اب پاکستان کا حصہ ہیں کیونکہ پاکستان نے انھیں ایک عبوری صوبہ کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔یہ علاقہ قدرتی دولت کے اعتبار سے بھی اور سیاحت کے اعتبار سے عالمی دنیا میں ایک ممیز حیثیت اختیار کر چکی ہے اور ایسےمیں پاکستان اور عوامی جمہورہی چین کے مابین طے شدہ معاہدہ ۔۔سی پیک جس کا گزر اس خطے سے ہوتا ہے ۔پاکستان کے لیۓ زندگی اور موت کا مسعلہ بن چکا ہے ۔اسی ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ماہرین کی نگرانی میں ایک پٹیشن پاکستان کے عدالت عظمی میں داٸیر کی گٸی تھی اور اس وقت کے چیف جسٹیس ثاقب نثار نے گلگت کا دورہ کر کے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہاں کے باشندے لاہوریوں سے بھی زیادہ پاکستانی ہیں مگر جب فیصلہ سنایا تو سب نے حیرت میں ڈال دیا ۔فیصلے میں کہا گیا کہ یہ خطہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی قرداد کے مطابق ایک متنازعہ خطہ ہے اور یہ کبھی ھی پاکستان کا حصہ نھیں بن سکتا جب تک کشمیر کا مسعلہ حل نہ ہو ۔وہاں ہندوستان کی حکومت نے5اگست ٢٠١٩کو یکطرفہ قانون سازی کر کے جموں کشمیر کا خصوصی حیثت کا خاتمہ کر کے اسے ہندوستان کا حصہ قرار دیا ۔اور اسی بات سے دونوں ممالک کے درمیان الفاظ کے تبادلے کا ماحول گرم ہوتا نظر آتا ے ۔حال ہی میں وہاں کے وزیر نے دفاع نے ایک اور متنازع بیان دیا ہے جس یں انہوں نے اس خطے کو ہندوستان کا حصہ قرار دیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔یہ آزادی اب یہاں کے باشندوں کے لیۓ ایک معما سے کم نھیں ۔