گلگت بلتستان اور مالیاتی نظام
گلگت بلتستان اور مالیاتی نظام
تحریر: ڈاکٹر نذیر بیسپا
گلگت بلتستان کی عوامی اکثریت سیاسی حقوق اور آئینی سٹیٹس کے تعین کے بغیر ٹیکس دینے کی مخالف ہے اسی لیے جب بھی یہاں ٹیکس کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو احتجاج کی صورت میں ایک بھرپور مزاحمت سامنے آتی ہے اور یوں یہ ٹیکس نفاذ کا معاملہ مزید چند سالوں کے لیے مؤخر ہو جاتا ہے۔
میں مالیاتی امور کا کوئی ماہر نہیں ہوں اس لیے اس موضوع پر فنی اعتبار سے اظہار رائے کرنے سے قاصر ہوں لیکن یہ جانتا ہوں کہ ٹیکس امور مملکت و ریاست کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ریاست عوام کے دئے ہوئے ٹیکس کی رقم سے تعلیمی، طبی، صحت و صفائی، عوامی جان و مال و عزت و آبرو کے تحفظ، دفاع، مواصلات، تفریحی مواقع جیسے ضروری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے پاکستان میں ٹیکس دینے کے باوجود بھی ریاست چلانے والے ادارے عوام کو ان کا آئینی اور انسانی حقوق دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام پچھلے 75 سالوں سے نہ صرف بنیادی سہولیات بلکہ آئینی تشخص کے حق سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے لوگ نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ بظاہر ایک منتخب اسمبلی موجود ہے جس کے پاس قراردادیں پاس کرنے اور مراعات لینے کے علاوہ کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ اسمبلی، وزیر اعلی، کابینہ، عدلیہ غرض تمام انتظامی اور حکومتی امور اسلام آباد اور فوج کے دو مقتدر نمایندوں کے مرضی سے چلائے جاتے ہیں اور انہی کے فیصلوں کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہے۔ وزرا اور عوامی نمایندے کجھ مراعات اور چند نوکریوں پر خوش ہیں۔ ایسے میں عوامی امنگوں کی ترجمانی سول سوسائٹی کے اراکین اور قوم پرستی کے لیے بدنام کچھ افراد کر رہے ہوتے ہیں جن میں علما، وکلا، طلبا، تاجر پیشہ افراد سب شامل ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام پر بلا واسطہ ٹیکس کے نفاذ میں بھی یہی کچھ سرپھرے افراد شامل ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال ہمیشہ عوام مفاد کی سیاست کو ترجیح دی ہے۔
میں خود بھی ذاتی طور پر ہماری آئینی حیثیت کا تعین ہونے تک کسی بھی قسم کے بلاواسطہ ٹیکس دینے کا مخالف ہوں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ہم ٹیکس کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں اور اختلاف و اعتراض پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں ٹیکس کی مخالفت سے قبل ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس کے علاوہ تمام دیگر ٹیکس ادا کر رہے ہوتے ہیں جو باقاعدہ طور پر حکومتی خزانے میں جمع ہوتے ہیں اور اسلام آباد اس کا ایک چھوٹا حصہ احسان کی شکل میں ہمیں واپس دیتا ہے ۔ ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے ۔ ہم ماچس سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک ، کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر مشینی آلات کی خریداری تک ہر جگہ ٹیکس دے رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ٹیکس گلگت بلتستان کے خزانے کے بجائے اسلام آباد کے خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔
ٹیکس بنیادی طور پر وہ محصول ہے جو حکومت مختلف سرگرمیوں، اجناس یا خدمت پر وصول کرتی ہے اور دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی: بلاواسطہ ٹیکس اور بالواسطہ ٹیکس۔ بلاواسطہ ٹیکس میں انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور دولت ٹیکس شامل ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس (ان ڈائریکٹ ) ٹیکس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور دو طرح کے ٹیکسز پر مشتمل ہے یعنی: ٹیکس اور ڈیوٹی۔ ٹیکس سامان، خدمات اور وسائل پر عائد کیاجاتا ہے جب کہ ڈیوٹی کسٹم اور ایکسائز کے ذریعے وصل کی جاتی ہے۔ میرا ماننا یہی ہے گلگت بلتستان کے عوام بالواسطہ ٹیکس ہمیشہ سے دیتے آ رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ بدقسمتی سے میرے پاس گلگت بلتستان سے ان ڈائریکٹ جمع ہونے والے ٹیکس کی مقدار اور حجم کے لحاظ سے کوئی اعداد و شمار نہیں ہے لیکن میرا اندازہ یہی ہے کہ اربوں میں ضرور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مالی امور سے وابستہ ہمارے نوجوان آگے آئیں اور تحقیق کریں کہ گلگت بلتستان سے کتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے اور ان میں سے کتنا حصہ عوام پر اور کتنا حصہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں کلی طور ٹیکس کی مخالفت کے بجائے اس ریگولیٹ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں مقامی طور پر ایک ریوینیو بورڈ تشکیل دے کر گلگت بلتستان سے جمع ہونے والے ٹیکس کو یہاں سے باہر جانے کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے مقامی اور غیر مقامی افراد جو یہاں تجارت کر رہے اور یہاں کے وسائل استعمال کر رہے ہیں ، ان سے بھی اگر فیس وصولی کا کوئی منظم سسٹم بنایا جائے اور اس رقم کو علاقائی اور عوام مفاد کے لیے یا اسی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
لہذا میری گزارش یہی ہے کہ کلی طور پر ٹیکس کی مخالفت کے بجائے صرف بلاواسطہ (ڈائریکٹ) ٹیکس کی مخالفت کی جائے اور بالواسطہ (ان ڈائریکٹ) ٹیکسز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی طریقہ وضع کرنے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ وہ تمام ٹیکسز مقامی طور پر جمع ہو کر یہیں خرچ کئے جا سکیں۔