پچھتاوا ! تحریر :پروفیسر قیصر عباس
پچھتاوا ! تحریر :پروفیسر قیصر عباس
انسان چونکہ غلطیوں کا پتلا ہے اس لئے زندگی میں اس سے ایسی غلطیاں ضرور ہوتیں ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔انسان سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے معاملات بہتری کی طرف آ سکتے ہیں لیکن کئی دفعہ انسان کی توقعات کے برعکس نتائج نکلتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف سے بھی کم وبیش وہی غلطیاں سرزرد ہوئیں ہیں جن کا عمران خان کے لئے ازالہ کرنا مشکل ہے۔آج ہم ان غلطیوں پر بات کریں گے۔سب سے پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب پنجاب جیسے بڑے صوبے کو ایک غیر معروف ، نااہل اور سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری شخص یعنی عثمان بزدار کے حوالے کر دیا گیا۔ہوسکتا ہے اپنی دانست میں یہ ایک درست فیصلہ ہو اور اس سارے عمل کے پیچھے یہ حکمت عملی ہو کہ ایک کمزور بندے کو صوبے میں وزیر اعلیٰ لگا کر صوبے کو براہ راست کنٹرول میں رکھا جائے مگر خان صاحب کا یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔کیونکہ پنجاب میں اک عرصے سے مسلم لیگ ن حکومت کر چکی تھی اور شہباز شریف انتظامی معاملات میں اپنا لوہا منوا چکے تھے اس لئے شہباز شریف کے مقابلے میں تین لوگ اس صوبے کو چلا سکتے تھے جن میں سر فہرست چوہدری پرویز الہی تھے اس کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے عبدالعلیم خان یا پھر شاہ محمود قریشی تھے۔لیکن خان صاحب نے اپنی من مانی کی صوبے کو انتظامی لحاظ سے مفلوج کر کے رکھ دیا بلکہ جب بھی عثمان بزدار کے بارے بات کی تو نہ صرف ان کا دفاع کیا بلکہ ان کو “وسیم اکرم پلس “کا نام دیا ۔حالات اتنے بگڑ گئے کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے اسرار پربھی خان صاحب عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلی بنانے کے لئے نہ مانے ایک وقت ایسا آیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے علیم خان اور پرویز الہی میں سے کسی ایک کو وزیر اعلیٰ بنوانے کا کہا لیکن تب تک معاملات بہت حد تک بگڑ چکے تھے۔عدم اعتماد کی تحریک آئی تب پرویز الہی پر اتقاق ہوا مگر اس وقت پلوں کے نیچوں سے پانی گزر چکا تھا۔دوسری غلطی خان صاحب نے اپنے دور اقتدارمیں یہ کی کہ اپنا ایک خاص حلقہ احباب رکھا جن میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا عملی سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا اور مزید یہ لوگ پاکستانی سیاست کی سمجھ بوج بھی نہیں رکھتے تھے ۔دوسرے لفظوں میں جی حضوری ،خوشامد کرنے والےاور ہاں میں ہاں ملانے والے ۔یہ وہ حضرات تھے جو کوئی بھی ایسی بات کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے جو خان صاحب کی طبع نازک پہ گراں گزرے۔پاکستانی سیاست میں مزاکرات اور معاملات کو گفتگو شنید کے ذریعہ حل کرنے کا رواج ہے مگر ان غیر سیاسی عناصر نے سیاست میں اختلاف کو ذاتی دشمنی تک پروان چڑھایا اور نتائج سامنے ہیں بلکہ بات یہاں تک نہ رکی خان صاحب کے وہ ساتھی جو پارلیمانی سیاست کا تجربہ رکھتے تھے یا ان اختلافات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی بات کرتے تھے ان کو ایک ایک کرکے نہ صرف سائیڈ لائن کیا گیا بلکہ ان پر بنی گالہ اور وزیراعظم ہاوس کے دروازے بھی بند کرکے “کھڈے لائن” لگا دیا گیا اور ان شرفاء نے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر چپ سادھ لی ۔اب حالت یہ ہے کہ ان غیر سیاسی عناصر کی اکثریت مشکل وقت میں خان صاحب کو اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ گئی ہے۔خان صاحب کی اس سے فاش غلطی کیا ہو سکتی ہے کہ جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پاس ہوگئی جو خالصتاً ایک آئینی اور قانونی عمل تھا تب خان صاحب بطور اپوزیشن لیڈر کردار ادا کرنے کی بجائے سڑکوں پہ آگئے۔چاہئے تو یہ تھا کہ خان صاحب پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بطور اپوزیشن لیڈر مثبت کردار ادا کرتے اور حکومت کے لئے میدان کھولا نہ چھوڑتے لیکن خوشامدی اور چاپلوس حواریوں کے غلط مشوروں پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف پارلیمنٹ کی کسی بھی کاروائی کا حصہ بننے سے انکار کیا بلکہ پارلیمنٹ سے استفعے بھی دے دئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راجہ ریاض صاحب اپوزیشن لیڈر بن گئے اور نیب سمیت اہم اور کلیدی عہدوں پر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشاورت کرکے تقرریاں کردیں۔اس کے بعد پنجاب اور KPK کی اسمبلی کو تحلیل کرنے والی ایک بڑی غلطی کی اپنی ہی حکومت کو چلتا کیا پرویز الہی چونکہ ایک گھاگ سیاستدان تھے انہوں نے لاکھ سمجھایا مگر خان صاحب نہ مانے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پنجاب پولیس جو چند دن پہلے زمان پارک کا پہرہ دے رہی تھی وہی پنجاب پولیس زمان پارک میں خان صاحب کو گرفتار کرنے کے لئے پہنچ گئی۔خان صاحب کی سنگین ترین غلطی 9مئی کا دلخراش واقعہ ہے سیاست دان جیلوں میں آتے جاتے رہتے ہیں اگر چند دن کے لئے خان صاحب بھی جیل کے مہمان بن جاتے تو کون سی قیامت آجاتی؟لیکن اپنی ضد اور انا کی وجہ سے خان صاحب اتنی قربانی دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان 9 مئی کے واقعات میں کس حد تک ملوث ہیں ؟لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ خان صاحب کی تقریروں نے کارکنان کو اشتعال دلایا.حالات قابو سے باہر ہوئے ملکی تنصیبات پر حملے ہوئے ،شہدا کی تصویروں کو جلایا گیا ان شہدا کے لواحقین کی دل آزاری کی گئی۔ فضا تحریک انصاف کے خلاف بن گئی ہے ۔تحریک انصاف کے نامی گرامی لیڈران ایک ایک کر کے تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں اور خان صاحب کو داغ مفارقت دے رہے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ خان صاحب اور تحریک انصاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔خان صاحب پچھتا تو رہے ہونگے لیکن وہ اک محاورہ ہے نا “اب پچھتائےکیا ہوت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔
پروفیسر قیصر عباس!