پاکستان کی متنازعہ خارجہ پالیسی، ساجد حسین
پاکستان کی متنازعہ خارجہ پالیسی ۔
آج کل کے اس دور میں جہاں انسان ترقی کی عروج پر پہنچا ہے وہی ممالک کے تعلقات بھی ایک دوسرے کے ساتھ بدل رھے ہیں ۔مفادات کوحاصل کرنا بغیر کسی تنازعات کے ایک ملک کی کامیاب پالیسی ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے مملکت خدادا پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ہی کنفیوس رھی ہے ۔اس کے کٸی پہلو ہیں
۔پہلا پہلو قیام پاکستان کے وقت کا دور ۔
پاکستان جب آذاد ہوا تھا تو اس وقت عالمی سیاست میں دو بڑے ممالک جنگ لڑ رہے تھے جسے ہم سرد جنگ کہتے ہیں ۔یہ وہ دور تھا جس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ڈھگمگا رہی تھی ۔ایک طرف سویت یونین نے ہمارے وزیر خارجہ کو روس کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی ۔مگر اسے قبول کرنے کے بعد یکسر فیصلہ تبدیل کر کے امریکہ کی طرف جھکاٶ کیا ۔یوں ہم آذاد خارجہ پالیسی اپنانے میں ناکام ہوۓ ۔امریکہ کی طرف پیش قدمی کرنے کے پاکستان کو جس قدر نقصانات پہنچے اس کا ایوب خان کی لکھی ہوٸی کتاب ”Friends not a master “لکھ کر اپنے دل کا بھڑاس نکالا ہے ۔اس کے بعد CENTO and SEATO جیسی دفاعی تنظیم میں شمولیت کر کے کی ۔اس تنظیم کے قیام کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادی کا دفاع کرنا تھا مگر ١٩٦٥کی جنگ میں پاکستان کی امداد کرنے کے بجاٸے ١٩٧١ کی جنگ میں بھی محص سہارا دیتی رھی ۔اور سقوط ڈھاکہ کا دل خراش واقعہ پیش آیا ۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم محص عالمی طاقتوں کے آلہ کار بن کر رہے ہیں ۔
دوسرا ادوار ۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں مسٹر بھوٹو کی حکومت قاٸم ہوٸی تو خارجہ پالیسی پھر بدل گٸی ۔اب پاکستان نے اپنے مفادات کو روس کے ساتھ جوڑے ۔روس سے تعلقات کا آغاز ھوا اور پاکستان میں روس نے اسٹیل مل قاٸم کر کے ایک بار پھر دوستی کا مظاہرہ کیا ۔مگر اسی ادوار میں امریکہ کے دباٶ نے فرانس سے ایٹمی پلانٹ کی منسوخی کراکر ہمیں ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا ۔ اس ادوار میں ہم کھل کر روس کے ساتھ تعلقات کو اپنا نھیں سکے ۔
تیسرا ادوار.
جب پاکستان میں سابق صدر ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو امریکہ کے مرحون منت ایک بار افخان جنگ تخفے میں لایا ۔اور سویت یونین کے خلاف محاذ کھولا اس کے بعد جب ھم نے ایٹمی حملے کے تجربات کیے تویہی امریکہ نے اقتصادی پابندی عاٸید کردی ۔اور ہیوں ھم اب سعودی عرب کی طرف دیکھنے لگے ۔ چوتھا ادوار ۔جب ہم ٢٠٠٠ کے اس دور میں داخل ہوٸے تو ٩/١١ کا واقعہ پیش آیا اور اسی امریکہ نے ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔اس کے نتاٸج آج تک ہم بگت رہے ہیں ۔
پانچواں ادوار ۔
اب امریکہ کے بلمقابل عوامی طاقت چین اس دنیا میں ابھری تو پاکستان نے CPEC جیسی معاشی معاہدات کر کے اپنا جھکاٶ اس طرف کیا ۔مگر سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب بار ہا کہ چکے ہیں کہ ھماری خارجہ پالیسی کھبی آذاد نھیں رھی ۔روس کے دورے نے کٸی سوالات جنم دیے ۔بعض حکام یہ کہتے رہے کہ ھم نے روس کا دورہ امریکہ کو اعتماد میں لے کر کیا اور بعض نے تو اس بات کی تردید بھی کی ہے ۔حیرت ہی ہے کہ ایک آذاد ملک کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے متنازعہ رہی اور آج تک ھم نے کوٸی سبق نھیں سیکھا ۔اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے ادوار میں ھم ھمیشہ کی طرح بڑے عالمی طاقتوں کے تابع رہے گی ۔