موجودہ نظام تعلیم کا معاشرے پر اثر
موجودہ نظام تعلیم کا معاشرے پر اثر ۔۔۔۔
آج ہم ہماری نظام تعلیم کو سمجھنے کی کوشیش کریں گے جس سے معاشرے پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس بات کا اندازہ اور تجزیہ کرنے کی کوشیش کریں گے ۔اگر دیکھا جاۓ تو موجودہ نظام تعلیم صرف معاشرے میں نوکر ہی پیدا کر رہی ہے اور تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان جو اپنے آپ کو اقبال کا شاہین قرار دیتے ہیں ۔صرف نوکری حاصل کرنے کو اور سرکاری نوکر بننے کو ہی کامیاب قرار دیتے ہیں ۔یہ نظام تعلیم در اصل برطانوی نظام تعلیم کا وہ پہلو ہے جو اس وقت کے انگریزوں نے ہندوستانی باشندوں کو اپنے نوکر اور سرکار کے وفادار بنانے کے لٸے اپنا یا تھا ۔ہمارے پاس خالص اسلامی نظام تعلیم بھی نہیں ہے کیوں کہ معاشرے میں استاد کی حیثیت محص ایک ملازم کی سی رہ گٸی ۔ہی نظام تعلیم بچوں کو ھان بوجھ کر صرف طوطا بنا رہا ہے ۔محض چند کتابوں کا پڑھنا اور اس کو طوطے کی طرح یاد کرنا اور وہی لکھ کر اسی کو کامیاب قرار دینا ۔اگر آپ میری بات سے اتفاق نیں کر رہے ہیں تو آج کی کسی بھی درجے کی تدریسی کتاب اٹھا کر دیکھے ۔آپ کو اس کی مواد تیس سال پرانا ملے گا ۔اللہ تعالی کی مخلوق کو ہم قابل اور ناقابل کے پیمانے میں نہیں طول سکتے ۔بات یہ ہے کہ یہ تعلیمی نظام طالب علموں میں احساس کمتری پیدا کرتی ہے اور صرف انھی طالب علموں کو قابل قرار دیتی ہے جو کتابی کیڑا ہو ۔در اصل صلاحیت تو یہ ہے کہ کتابوں کو بطور رہنما اور گاٸیڈ سمجھ کر صلاحیتوں میں اضافہ کریں ۔اپنے مساٸل کا خود حل ڈھونڈے ۔مگر طالب علم محص نوکری پانے کو ہی کامیاب قرار دیتے ہیں ۔سب سے اہم مسٸلہ تربیت کا ہے ۔یہ موجودہ نظام طالب علموں کو تربیت جیسی سنہری اور انمول شے سے دور لے جاتی ہے ۔یہ بچوں کو نافرماں بناتی ہے جس کی مثال موجودہ معاشرے میں دیکھاٸی دیتی ہے ۔آج تک طالب علم جو بڑے بڑے پوسٹوں پر فاٸز ہے وہ محص خود غرضی ۔لالچ اور مال و زر بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔حقوق الناس کی بات تو دور ۔اپنے غریب اقربا کا بھی خیال نھیں کرتے ۔اس کے علاوہ بچے صرف ان اساتزہ کرم کو قابل قرار دیتے ہیں جو انگریزی بولنا جانتے ہیں اس کے علاوہ سب بےکار ہی ہے ۔آج تک اپنے ملک کے حالات کو ہم اس نظام تعلیم سے نہیں بدل سکے ۔نوجوان محص مغربی تہزیب کے گن گانے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں ۔نفسیاتی پہلو سے ہی ہماری نظام تعلیم مفلوج اور بے سود نظاموں میں شامل ہے ۔کیوں کہ طالب عمل جو قابل سمجھے جاتے ہیں وہ محض ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور پوری عمر مریضوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں جبکہ ناقابل طالب عمل سیاسیات اور انتظامات و دیگر ریاستی امور چلانے والے اداروں میں گھستے ہیں اور وہ حاکم بن جاتے ہیں جبکہ فتین طالب علم محض نوکر ۔اسکولوں اور کالجوں میں درجہ بندی طالب علموں میں امتیازات کو جنم دیتی ہے اور کم ظرفی جیسی پست صفات جنم لتے ہیں ۔پس ہمیں اگر کچھ کرنا ہے اور ترقی ہی کرنی ہے جس کا آج تک ہم شور مچاتے آرہے ہیں تو محض ایک ہی کام کرنا ہوگا ۔وہ ہمارے ہمساۓ میں موجود ملک عوامی جمہوریہ چین کا نظام تعلیم کو دیکھنا گا ۔انہوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک سال تعلیمی اداروں کو مکمل بند رکھا ۔تاکہ نظام تعلیم وضع کرسکے ۔پس اپنی کتابیں ترتیب دی ۔یوں آج ہم سے بہت آگے نکلا ہے ۔اسی طرح جاپان میں سات سال تک محض اخلایات پڑھایا جاتا ہے اور کچھ نہیں ۔پس ترقی کا راز اسی میں چھپا ہے کہ تعلیمی نظام کو از سر نو تشکیل دینا ہوگا ۔