تاریخ بلتستان . بلتستان یا تبت خورد .قسط نمبر 2
بلتستان یا تبت خورد
قسط نمبر 2
یہ علاقہ ماقبل تاریخ کا کوئی غیر معروف اور دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ایک خطہ ارضی ہے۔سر بہ فلک چوٹیوں ، وسیع و عریض گلیشروں سے گھری ہوئی ہے یہ سر زمین جو ایک ایسا سنگ ہے جو اس وقت بھی اور آج بھی بجائے، خود سنگین ہے ۔
نہ جانے سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ اور قراقرم میں گھرے ہوئے ان بے آب وگیاہ ننگے پہاڑوں میں کیسی دلکشی ہے اس وقت بھی کبھی تبت کے عظیم سلطنت جوکی مہذب اور متمدن نگاہیں اس خطے پر جمی ہوئی تھیں۔ کبھی سلطنت مغلیہ کی للچائی ہوئی نظریں اس بیرون اذکار سرزمین کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے مصروف عمل رہے ۔ کبھی گلاب سنگھ ڈوگرہ
دربار خالصہ اور انگریزوں کی حمایت سے اپنی جوع الارضی کے جذبات کے تحت اپنی حدود کی توسیع کے لیے قریبی اور ہمسایہ سرحدات کے ساتھ ساتھ
اس خطہ ارضی پر کبھی غاصبانہ مداخلت کے اقدام کرتا رہا اس وقت بھی بھارت کے بھوکے درندے تمام بین الاقوامی قوانین و ضوابط اور معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر سیاچن گلیشر کی آڑ میں اس کی کو ہتھیانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور ہر روز نت نئے انداز سے حملہ کر رہے ہیں ۔ ادھر عالمی سطح پر مہم جو ممالک یہاں کی فلک بوس چوٹیوں کو تسخیر کرنے پر سالانہ کڑوڑں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں سیاح ومحققین یہاں کی سیاحت اور معدنیات کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں
بلتی یول اور اس کے مختصر تاریخی حالات
خوش نصیب ہوتی ہے وہ قوم وہ گرانہ وہ خاندان اور وہ علاقہ جس میں کچھ ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہے جو اپنی خداداد صلاحیت، پر خلوص اعمال ، بلند کردار اور عقل و شعور سے کچھ ایسے انمٹ نقوش ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتی ہے جو نہ صرف اس قوم یا علاقے کا طرہ امتیاز ہوتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے نشان راہ بن جاتے ہیں۔ ان راہوں پر چل کر قوم ملت منزل مقصود پالیتی ہے۔
جب کسی قوم کی تقدیر میں انقلابی عمل رونما ہونے والا ہو تو قدرت الہی ان حالات کے لئے مناسب اور سازگار سامان خود انہی میں پیدا کردیتی ہے۔ جیسے برصغیر کی تقدیر میں مقامی حکمرانوں کے تسلط سے نکل کر کچھ عرصہ غیر ملکی غاصبوں کی غلامی اور حاشیہ برداری مرقوم تھی تو میر جعفر میر قاسم اور میر صادق جیسے غدار ، ننگ ملت ، ننگ دین اور ننگ وطن لوگ پیدا ہوئے جن کی خود غرضانہ سازشوں اور نمک حرامیں کے نتیجے میں برصغیر میں صدیوں تک غیر ملکی حملہ آوروں کی حکومت رہی۔ قوم جابر حکمرانوں کی غلامی اور ظالمانہ طرز زندگی کی زنجیروں میں جکڑی رہی۔ملک پر غیروں کا قبضہ رہا۔ اس سنہرے پرندے کا ایک ایک بال نوچ نوچ کر سورج نہ ڈوبنے والی حکومت کے تخت و تاج کی سجاوٹ ہوتی رہی
جب قدرت کی منشا کے مطابق اس مقہور اور مصیبت زدہ قوم کی ذہنی سزا پوری ہو گئی اور قوم اپنی گناہوں سے تائب ہو کر اللہ کی نظر کرم کی متلاشی ہوئی تو سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے مصلح اور مفکر جناب قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم قائد ،موہن داس کرم چند گاندھی جیسے عظم وعمل کے پیکر ، بہادر یار جنگ اور مولانا ظفر علی خان جیسے شعلہ بیان مقرر اور صحافی نوابزادہ لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو جیسے سیاست دان پیدا ہوئے ان کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں کے نتیجے میں آخر کار غاصب حملہ آوروں کو یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور برصغیر کی عوام اپنی صبح و شام کے خود مالک و مختار بن گئے ۔بلتستان کی تاریخ بھی ایسی ہی شام و سحر اور نشیب و فراز سے استوار رہی ہے ۔
بلتستان پر ہر چند کی بیرونی حملہ آوروں کی یلغار بہت کم ہوئی لیکن باہمی چپقلش اور کشمکش کی وجہ سے چین اور سکون داؤ پر چڑھتے رہے۔ جب ایک خاندان یا مملکت کا مستقبل چمکنے والا تھا تو مقپون علی شیر خان انچن ڑگیلفو شامراد ڑگیلفو امام قولی خان اور ڑگیلفو حیدر خان حیدر جیسی ہستیاں پیدا ہوئیں۔ جنہوں نے وطن عزیز کے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے ۔ نہ صرف فتوحات کی بلکہ عدل و انصاف کی حکمرانی سے حملہ آوروں لٹیروں اور غاصبوں کی گردن زدنی اور سرکوبھی سے امن اور سکھ چین کا سازگار ماحول برقرار رکھا اور بلتستان بام عروج پر مہر درخشاں بن کے چمک گیا۔ جس کی جگمگاہٹ دور دور تک پھیل گئی اور جب اس پر امن اور خوشحال مملکت پر بدبختی کے بادل چھانے کا موسم آنے لگا تو ان ہی خاندانوں میں محمد شاہ اور علی شیر خان کھرمنگ اور دولت علی خان خپلو جیسے رجے، وزیر
ڈغونی پا وزیر بونو ، ھلچے کھٹ پا وزیر محمد علی، نقتلوپا غلام حسین اور غضواپا وزیر محمد جیسے وزرا پیدا ہوئے جن کی خود غرضی اور مفاد پرستی اور ہوس اقتدار کے نتیجے میں بلتستان غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہو گیا اور 108سال بلتستان ڈوگرہ سامراج کے پنجے استبداد میں جھگڑا رہا اور اب تک ان ستم رانیوں کی کسک اور جبر و تشدد کی خلیش محسوس کی جارہی ہے۔ آخر میں حیدر خان حیدر اپنے آخری دم تک اپنی قوت بازو سے حق دار اور فہم و شعور سے مملکت کی آزادی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتے رہے۔ آزادی چھیننے کے بعد سے آج تک ان کے قلم اور زبان کی جولانیاں قوم کو درس آزادی دینے اور ان کے جذبات کو ابھارنے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔