شغرتھنگ پروجیکٹ مسلسل تاخیر کا شکار کیوں ؟
شغرتھنگ پروجیکٹ مسلسل تاخیر کا شکار کیوں ؟؟؟ آج ہم آپ لوگوں کو ایک ایسے پروجیکٹ کے بارے میں آگاہی دینا چاہتے ہیں جس کی بنیاد پاکستان مسلیم لیگ (ن)کے دور حکومت میں رکھی گٸی ۔غالبأ سن ٢٠١٠میں ۔اس پروجیکٹ کا اصل مقصد بلتستان میں بڑھتی لوڈشیڈینگ اور تواناٸی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا ۔اس مقصد کے لیٸے اس وقت کی حکومت نے 26میگاواٹ پن بجلی کا تخمینہ لگایا اور اس سے حاصل ہونے والی بجلی اس قدر وافر مقدار میں پیدا ہونے والی تھی کہ اسکردو کبھی بھی بجلی کے لیۓ کسی کا محتاج نہیں ہوناتھا ۔مگر افسوس کہ اس وقت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وہ حکومت کسی کام نہیں آسکی ۔صرف دعوے ہی کرتی رہی اور یہ منصوبہ بخیر کسی وجہ کے نا مکمل رھا ۔بار ہا اسکردو میں نماز جمعہ میں بھی اس میگا پروجیکٹ کی اہمیت پر آواز اٹھانے کی کوشیش کی مگر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگا ۔شغرتھنگ پروجیکٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کا پانی بلکل صاف شفاف اور خالص پانی ہے ۔یہ دریا کا پانی نہایت اونچاٸی سے گٍر رہا ہتا ہے اور اس میں پوٹینشل اینرجی بھی کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ ڈیم بانے کے لیۓ بھی چاروں اطراف میں دیو قد آور پہاڑیں موجود ہیں ۔جو ایک طرح کی قدرتی مدد بھی اس پانی کو جمع کرنے میں مدد دیتی ہے اس کے علاہ شغرتھنگ تا استور روڈ کی تعمیر نو اھل بلتستان کے عوام کے لیۓ مسافت کو ٧گھنٹے میں راولپنڈی پہنچا دیتا ہے ۔اس روٹ کو آجکل سی پیک میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔اس سے تجارت کو فروغ ملے گی اور کم وقت میں اشیا کی ترسیل بھی ہوجاۓ گی ۔یہ ہی نہیں بلکہ سیاحت کو بھی ترقی ملے گی ۔اس کے علاوہ یہ راستہ محفوظ اور قدرتی آفات سے بھی محفوظ ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس میگا پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں دن رات ایک کر کے محنت کرے اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاٸے ۔اس پروجیکٹ میں آج تک کوٸی پیش رفت دیکھنے کو نیں ملی ۔بلتستان کا مستقبل اسی منصوبے سے جوڑا ہوا ہے اور اس وقت بلتستان ک جو بجلی کی بحران کا سامنا ہے وہ اسی کی تاخیری کا اکی سبب ہے ۔اس پروجیکٹ کو لے کر ایک اور مسٸلہ جنم لے رہا ہے اور وہ یہاں کے باشندوں کی ملکیت کے حوالے سے ہے ۔اس خطے پر پہلے ڈوگرا راج کی حکومت تھی اور وہ عوام سے بطور ٹیکس مالیہ یا لگان لیتے تھے ۔عوام اس وقت مقامی راجا کے حوالے کرتے تھے اور وہ سرکار کے مگر افسوس کہ ان ڈوگرا راج سے نجات کے بعد زمین کی ملکیت کاغزی کارواٸی کرت وقت مقامی راجا نے اپنے نام سے منصوب کیا ۔اور مقامی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگا ۔جب ١٩٧٣ میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں آنے کے بعد یہ مالیہ ختم کراکر راجا کو سرکاری تنخواہ جاری کیا ۔اور اسے اس بات ا پابند بنایا کہ وہ اب ان زمینوں کا مالک نہیں رہے گا ۔اس کے بعد سے آج تک عوام نے ایک آنہ بھی اس راجا کو ادا نہیں کیا ۔مگر اب چونکہ اس خطے کی قسمت بدلنے کا وقت آیا ہے تو یہ راجا اس کو اپنی ملکیت ظاہر کر کے ایک بار پھر اپنی حاکمیت دکھانا چھتا ہے ۔حال ہی میں ایک شرعی فیصلہ بھی منظر عام یں ایا ہے جس میں کافی تفصیل سے اس بات کی گواہی دی ہے کہ زمین پر صرف اور صرف عوام کا حق ہے اور راجا خاندان اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں ۔حال ہیی میں یہاں کے عوام نے واضح کردی ہے کہ اگر معاوضہ مقامی لوگوں کے بجاٸے راجا خاندان کے نام پر بنا تو وہ اس روڈ کی تکمیل کرنے میں بھر پور مزاحمت کریں گے ۔حکام بالا سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرے اور اس منصوبے کو مزید تاخیر کارنے کے بجآٸے جلد از جلد اس کو تکمیل کراٸے ۔