سلور جوبلی و یوم تکبیر۔ محسن پاکستان ، نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان تجھے سلام۔
سلور جوبلی و یوم تکبیر۔ محسن پاکستان ، نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان تجھے سلام۔
تحریر۔ فدا علی ہیڈماسٹر گرلز ہائی سکول الچوڑی
آج بعد دوپہر گورنمینٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول الچوڑی میں یوم تکبیر 28 مئی 1998 پاکستانی عظیم ایٹمی سائنسدانوں کی دنیائے عالم واسلام میں مملکت پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے مناسبت سے ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں بچیوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور مختلف ادوار میں ایٹمی پروگرام کو دوام بخشنے والے صدور، انجنئیرز، اور سائنسدانوں کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ اس محفل میں چیئرمین smc اور ممبران نے بھی شرکت کیں۔ ذیل میں چند سطور محسنین پاکستان کے بارے میں لکھنا ضروری سمجھا تاکہ اس دن کے مناسبت سے نئی نسل کو آگاہ کروں ۔ قیام پاکستان کے روز سے ھی انڈیا پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خواہاں نہیں۔ وہ کوئی ایسا موقعہ ھاتھ سے جانے نہیں دیتا جہاں پاکستان کو ہزیمت کا سامنا ھونا ھو۔ کبھی ھماری سرحدوں پر تو کبھی ھماری اندرونی معاملات کو تہ وبالا کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ تاکہ پاکستان ھر لحاظ سے غیر مستحکم رہے۔ ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں وہ اپنی چودھراہٹ قائم کرنے اور ھمسایہ ممالک پر زعم بھٹانے کیلئے اپنی معیشت کا خطیر رقم دفاع پر خرچ کرتے۔ غیر مسلم ممالک کی بھی آشیر باد حاصل تھی۔ 1974 میں انڈیا نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا، اس کے فوراً بعد وہ پاکستان اور دیگر چھوٹے ممالک پر آنکھ نکالنے لگا۔ سرحدوں پر فوجیں جمع کرنا شروع کیا۔ جابجا سرحدی خلاف ورزیاں کرنے لگے۔ خاص کر پاکستان پر چڑھائی کرنے کا ناپاک عزائم بھانپ کر 1976 میں اس وقت کے قائد عوام وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کا بنیاد رکھا۔ ایٹمی پروگرام کو تکمیل کرانے کیلئے ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو ھالینڈ سے ڈاکٹر عبد السلام کے زریعے پاکستان لایا گیا۔ وطن اور اسلام سے محبت کے ناطے 30000 ھزار ماھانہ تنخواہ، مراعات، عیاشی چھوڑ کر 3000 روپے میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں کام کرنے کو فوقیت دی۔ یہاں آپ کو اپنی منشاء کے مطابق کام کرنے کو دل نہ لگا تو الگ سے پنڈی کے تحصیل کہوٹہ میں ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کا قیام وجود میں لایا۔ جہاں دسوں ایٹمی سائنسدانوں، انجنئیروں کے ساتھ ملکر 16, 16 گھنٹہ شبانہ روز محنت کی بدولت 10 سال کے قلیل مدت میں یورینیم کو سینٹری فیوج کے طریقے سے افزودہ کرنے کا کام کمال مہارت کے ساتھ انجام دیا۔ یوں پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ملک بن چکا تھا۔ لیکن ھر دور اور ھر حاکم نے بیرونی دنیا سے مخفی رکھا، کہیں لیبیا، شام اور ایران کی طرح پروگرام ھی سمیٹ نہ لیں۔ سب نے اپنی اپنی بساط میں جوھری پروگرام کو فنڈ دیتا رہا۔ لیکن دھماکہ کر کے دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاوروں کے صف میں کھڑا کرنا باقی رہ گیا تھا۔ مئی 1998 کا وقت آن پہنچا تو بھارت نے ھائڈروجن بم کا دھماکہ کر کے پہل کیا۔ دوسرے دن سے ھی پاکستان کو زیر کرنے کے خواب لیکر بھارت نے اپنی فوجیں سرحد پر لا کھڑا کیا۔ اسی اثناء پاکستان دیکھتا رہا کہ دنیا اپنے چھیتے کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتاہے۔ امریکہ اور اس کے حواری انڈیا پر کسی قسم کا بین لگانے کے بجائے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے خوف میں پاکستان وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ جس پر پاکستان کے نڈر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکی وفود سے ملنے سے صاف انکار کیا۔ چند ارب ڈالر کا پیشکش کیا۔ قرضے معاف کرنے کا کہا۔ دباؤ ڈالا گیا۔ لیکن نڈر لیڈر نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ بلکلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ھے کہ بحیثیت امریکی صدر کسی دوسرے ملک کے وزیراعظم کو ایک دن میں تین بار کال کرنےوالا صدر ھوں لیکن اس نے میری بات نہیں مانی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا تھا۔ ھم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائے بغیر نہیں رھیں گے۔ اللّٰہ کا کرم ہے کہ 28 مئی 1998 تین بج کر 16 منٹ پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے انڈیا کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ متواتر ایٹمی دھماکہ کر کے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یوں پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا جوہری ملک اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ ھمیں اپنے محسنوں پر فخر ھے۔ انہوں نے اپنے حال کو زحمت، تکلیف میں ڈھال کر ھماری مستقبل کو روشن، امن ،سکون، استحکام اور باوقار زندگی گزارنے کیلئے وقف کیا۔ اے محسنو تجھے سلام۔