تاریخ گلگت بلتستان درد قبائل کے لٹیروں اور کناپا وزیروں کی تاریخ .
درد قبائل کے لٹیروں اور کناپا وزیروں کی تاریخ
تاریخ گلگت بلتستان درد قبائل کے لٹیروں اور کناپا وزیروں کی تاریخ .
تاریخ بلتستان قسط نمبر 4
١٤٦٤میں جب غوتہ چو سنگے فوت ہوا تو اس کا بیٹا بہرام چو سکردو کا راجہ بنا
اس زمانے میں روندو سے لون چھے اوت چو نے بحرام کی راجدھانی پر حملہ کیا تو روندو کی فوج سکردو کی جان بازو کا مقابلہ نہ کر سکی اور راہ فرار اختیار کر کے بشو تک پہنچ گئی اور یہ علاقہ سکردو راج میں شامل ہوگیا مقپون فوج نے گربداس اور بشو حدود کے درمیان والی۔ پڑی پر ایک درخت شوکپہ نصب کیا جو مقپون فوج کی دفاعی برتری کے یادگار کے طور پر نصب کیا گیا تھا۔ اب تک محفوظ کر کے مقپونی شوکپہ کے نام سے مشہور ہے ۔
بہرام چو کی فوتگی کے بعد اس کا بیٹا بڑق مقپون کے نام سے سکردو کی راجگی پر متمکن ہوا۔ بوخا کا ١۴٩٠ سے ١۵١۵ تک اندازہ کیا ہے۔
دراصل بوخا کو سکردو میں مقپون راجدھانی کا بانی قرار دیا جاتا ہے
جس نے بڑق مایور چو کی حکومت پر قبضہ کرکے اپنی قلمرو کی حدود دور دور تک پھیلا دی۔ بوخا کے دور حکومت میں سکردو کی موجودہ بستی آباد ہوئی تھی۔شر کھی ڑگیم ژھو یعنی مشرقی دریا کے کنارے اونچی پہاڑی پر قلعہ کھرفوچو تعمیر ہوا ت۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد اصلاحات اور آباد کاری کے نمایاں کارنامے رو بہ عمل آے۔ مقپون بوخا متحدہ حکومت سکردو کا آخری غیر مسلم راجہ تھا۔ جو بدھ مت یا بون چھوس سے مسلمان ہو گیا تھا ۔ حالانکہ ان کے داداغوتہ چو سنگے کے زمانے میں ہی حضرت سید محمد نوربخش کے فیض سے بلتستان کے دور دور تک دین اسلام کا نور پھیل چکا تھا۔ اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔
مولوی حشمت اللہ خان نے تاریخ جموں میں اہم واقعات کے عنوان سے لکھا ہے مقپون بوخا کے دے عہد کا یہ بھی ایک اہم واقعہ ہے کہ میر شمس الدین عراقی بت شکن سید محمد شاہ کا
عہد سلطنت تھا۔ کشمیر پہنچ کر سید عراقی بابا علی نامی نجارکے معاونت سے کشمیر میں اعلانیہ مذہب امامیہ کی اشاعت کرنے لگے۔ سید محمد کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے میر شمس الدین عراقی کو کشمیر سے نکال کر اسکردو کی طرف بھیج دیا. سکردو پہنچ کر سید میر شمس الدین عراقی نے خود کو سید محمد نوربخش کا خلیفہ ظاہر کرکے مذہب امامیہ کا پرچار شروع کیا۔ اس وقت سکردو میں مقپون بوخا ، شگر میں اماچہ گزری خپلو میں بہرام چو اور پوریک میں حبیب چو حکمران تھے۔ کیونکہ لوگ سید محمد نوربخش کے نام پر جان تک دینے کے لئے تیار تھے۔ ہر ایک علاقے میں میر شمس الدین عراقی موصوف کی بڑی عزت و تکریم ہوئی۔ اس حکمت عملی سے وہ اپنی عقیدے کو پھیلانے میں بخوبی کامیاب ہوئے۔ چھے سال میں یہ مذہبی فریضہ ادا کر کے بت شکن کے لقب سے آراستہ ہوکر 908 میں واپس کشمیر چلے گئے ۔
شعر شاہ اول
بوخا کے بعد اس کا بیٹا شیر شاہ اول 1515میں تخت نشین ہوا۔ اور پندرہ سو چالیس تک پرامن اور پرسکون حکمرانی کی۔ شیر شاہ میر سید شمس الدین عراقی بت شکن کے پیرو تھا۔ اس نے اپنے نئے مذہب کی اشاعت میں بڑی کوشش کی۔ پندرہ سو چالیس میں شیر شاہ فوت ہوا تو اس کا بیٹا علی خان ۔ سلطنت کے مسند پر بیٹھ گئے
علی خان کی حکومت1540 سے 1560 تک رہی ۔
علی خان کے دور سلطنت سے حکومت مقپون کی خوش بختی کا ستارہ چمکنے لگا۔ حکومت میں وسعت پیدا ہوگی ۔
مقپون علی خان کے دور حکومت میں علاقے شنگھو شگر اور دراس وغیرہ میں ملحقہ علاقے استور ، چلاس وغیرہ کے درد کا قبائل کے حملوں اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے انتہائی بے چینی اور بدامنی پھیلی ہوئی تھی۔ کناپا قوم کی اصلاح اصل شاخ شنگھو شگر اور دراس میں آباد تھے۔ اور ایک شاخ گول سکردو میں آباد تھی۔ مقپون علی خان نے اس قبیلہ کے ذریعے دراس اور شنگھو شگر میں شورش پھیلا دی ۔
اور ان لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لیا ۔وہاں کے خودمختار بروقپہ اقوام نے کناپا خاندان کے ذریعے راجہ سکردو سے درخواست کی وہ انہیں درد قوم کے لٹیروں سے اپنی حفاظت میں لے لے۔ ان ظالموں کے حملوں سے نجات دلائے۔
جو چلاس اور استور سے آ کر مال و دولت لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ عورتوں اور مردوں کو بھی پکڑ کے لے جاتے ہیں اور غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ چو علی خان نے ان کی درخواست خوشی سے قبول کی اور دراس اور شنگھو شگر کو اپنی حکومت میں شامل کرکے استور کے راستے نالے شنگھو شگر سے متصل قرابوش اور گلتری میں بالترتیب حفاظتی چوکیاں مقرر کی اور محافظ سپاہی تعینات کئے۔ ایک قلعہ تعمیر کیا جہاں باقاعدہ فوج تعینات کی گئی۔ گول کے کناپا والوں کی سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جنہوں نے الحاق شنگھو شگر اور دراس کے معاملے میں سفارت کا کام احسن طریقے سے ادا کیا اور ان کی خدمات کے صلے میں ان کو وزارت کا عہدہ بھی عطا کیا گیا۔ تب سے کناپا والے مقپون خاندان کے بارہ وزیروں میں شامل ہو گئے۔ علی خان مقپون ایک مختصر سی زندگی گزارنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔