اسپانسرڈ فیسٹیول یعنی تباہی فیسٹیول
اسپانسرڈ فیسٹیول یعنی تباہی فیسٹیول
ہمارا ترقی پسند ، روشن خیال اور تعلیم کی ڈگری یافتہ طبقہ اور بالخصوص سرمایہ داروں کی راہ میں پلکیں بچھائے حکومتی مشینری بخوبی جانتے ہیں ہر خطہ کی اپنی شناخت ، تہذیب اور تہوار ہوتے ہیں جنہیں روشن خیالی کی بے خیالی میں مگن حلقوں میں فیسٹیول کا نام نہایت پسند کیا جاتا ہے یہاں یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی جا سکتی ہے کہ اب جو بھی اس عنوان سے کیا جا رہا ہے وہ گلگت بلتستان میں کب رائج تھا کوئی تاریخ دان کوئی صحافی کوئی قلم کار کوئی محکمہ کوئی حوالہ کوئی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہیں کہ پہلے کبھی ایسا ہوتا تھا البتہ اتنا ضرور ہے ان اسپانسرڈ تقریبات میں ضمنی طور پر ان سرگرمیوں کو بھی جگہ دی جاتی ہے تا کہ تماشائیوں کی تعدادِ بڑھائی جا سکے ۔
دوسرا پہلو جس پر اہل بصیرت و دانش کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان تقریبات کا حاصل کیا ہو گا اقتصادی ، تعلیمی ، اجتماعی پہلو سے کم ترین فائدہ تقریب ڈیزائن کرنے والوں کے منصوبہ میں شامل رہا ہے یا صرف ملنے والی امداد پر مکمل انحصار کیا گیا بظاہر یہی پہلو زیادہ اثر انداز ہے بلکہ ان تمام تقریبات کی تخلیقی روح ہے چلیں مان لیتے ہیں سرکار کی ذمہ داریوں میں عوام کو تفریح کے مواقع کی فراہمی بھی شامل ہے اسی تناظر میں بیرونی امداد بھی میسر آئے تو سونے پر سہاگا ۔
اب سرمایہ داروں کی آؤ بھگت سے فراغت ملی ہے تو توجہ دیں بازار میں مہلک اور مضر صحت اشیاء خوردونوش کی بھرماری اور موت کے سوداگروں کی آزادی اور سرکار کی تماشہ بینی پر جس صحت مند ماحول کی فراہمی کی غرض سے مادر پدر آزادی کو شہہ دی جا رہی ہے کا انحصار اشیاء خوردونوش کے معیاری ہونے کو یقینی بنانے پر ہے جس طرف نہ سرکار کی توجہ ہے نہ سرکاری سہولت کاروں کو اس کا غم ہے کہ خطہ میں موت کے اسباب میں 75٪ بازار میں سرعام حکومتی سرپرستی میں بکتے ہیں اور سرکار کی تمام تر توجہ پلاسٹک فری بنانے پر مرکوز ہے بے شک پلاسٹک بیگ بھی بیماری کے پھیلاؤ میں دخل رکھتے ہیں مگر تمام تر وجہ اور بنیاد نہیں ۔
صرف ایک پہلو بیان کیا گیا ہے دوسرے قابل توجہ پہلو بے شمار ہیں جن پر وقتاً فوقتاً توجہ دلائی جائے گی ۔