قاتلانہ حملہ۔ پروفیسر قیصر عباس گلگت پڑی بنگلہ میں ورکرز کنونشن کا انعقاد کنونشن میں پڑی بنگلہ بھر سے ہزاروں افراد کی شرکت شگر ۔ منصوبہ بندی و ترقیات گلگت بلتستان راجہ ناصر علی خان، ایڈیشنل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان مشتاق احمد، سیکرٹری تعمیرات کے ہمراہ لمسہ روڈ کا دورہ شگر محرم الحرام میں مجالس اور جلوس کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کیلئے سیکورٹی فورسز کا فلیگ مارچ کا انقعاد ۔ فیڈرل بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا شگر ، ور کمپنیاں اپنی وعدوں کے مطابق پورٹرز کو ادائیگی کرنے سے مکر گیا۔ پورٹرز کو ادائیگی کے بجائے سکردو سے پیمنٹ لینے کی چٹ دینے لگے علماے امامیہ شگر نے محرم الحرام کو مذہبی روادری اور امن و امان کے ساتھ منانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کا پلان تیار کرلیا ماہ مقدس ایثار، قربانی، جد و جہد، انسانی اقدار اور عوامی حقوق کا درس دیتا ہے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان شگر کے معروف سماجی رہنما غلام نبی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے یونیورسٹی آف بلتستان کے شعبہ لینگویجز اینڈ کلچرل سٹیڈیز کے زیر اہتمامُ”گلگت بلتستان میں اردو زبان و ادب کی روایت” کے عنوان سے ایک سیمنار کا انعقاد

بواشاہ عباس کی شاعری پر ایک طائرانہ نظر

بواشاہ عباس کی شاعری پر ایک طائرانہ نظر
سر نامہ تحریر اور زبان مجالس دین حضرت بواشاہ عباس کا تعلق صرف اس کی بلند افکار، رفعت کردار اور اوج کمال تخیل کا ہی نہیں البتہ جس نیک اختر دھرتی ماں کو اس عظیم المرتبت ہستی بے مثل و نظیر کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔اسے موضع چھورکاہ کا محلہ خنمیکا ہ کہا جاتا ہے۔ بلتی زبا ن کے اس اسم کا اردو معنی ستون فلک بنتا ہے۔ وجہ تسمہ جو بھی ہو اب اس سنسان سے محلے کی وجہ شہرت اعلیٰ حضرت بوا شاہ عباس رحمتہ کی شخصیت خود ایک عالم باعمل، علم بیان و عرض پر ایسی مہارت کہ مشکل سے مشکل بحراوزان میں بلندی تخیل، با معنی اور دلچسپ لفظ گری اور سادہ ترین بندش کے ساتھ کمال فن کے وہ مظاہر تخلیق کئے ہیں۔جو کما حقہ عقیدت سے بھر پور اور سعادت و برکات سے بھر پور محافل و مجالس کیلئے باعث زینت ہے۔ ان کے کلام میں جو تاثیر ہے بعینہ اس کے در پر دہ ان کا تصوفانہ فکر و عمل، علم و حکمت اور درویشانہ طرز زندگی کے وہ حقیق تجربات کار فرما ہیں۔ جو مودت اور عقیدت کے اظہار میں کسی طور خالی و خیالے فکر و سخن کی گنجائش مسدود کر دیتے ہیں۔ بلتستان کے علاوہ ایران و تبت اور دنیا کے دیگر ممالک جہاں بلتی بولی اور سنی جاتی ہے۔ وہاں محافل آئمہ طاہریں اہلبیت ؑ اطہار شہدائے کربلا اور معصومیں ؑ و مظلومین کی بارگاہان باسعادت میں ارمغان عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے عظیم کلام ہی یکساں منظور و مقبول سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے قصائد میں ان تمام برگزیدہ ہستیوں کے من جملہ فضائل و اعلیٰ مراتب کے ساتھ ساتھ ان کے خوشحالی اور اخلاق و بزرگی کی شایان شان مدحت سرائی کی خاطر اہل دل اور محبان آئمہ و اہلبیت ؑ کو جن موتیوں کے ضرورت محسوس ہوسکتی تھی، اعلیٰ حضرت بواعباس نے ان کا نہ صرف پیشگی مداوا فرمایا بلکہ اعلیٰ ترین اشعار کی صورت میں لڑیاں پرو کر رکھ دی ہیں۔ ان کے فن پر تبصرہ کرنا مجھ ایسے کچھ فہم اور عرفان و تصوف سے تہی نا تواں شخص سے کجاکاردارد۔ افسوس ہے کہ تاریخ بلتستان اپنے کئی حوالوں سے بہ تنگی چشمحسودگی شکار ہے۔ اور بقدر لب و دندان مورخین ضخامت اور قدامت سے محو ہوتی رہی ہے۔تاہم حضرت بواعباس کے حوالے سے دو چند سطور کتب کے مقدمے کے طور پر دستیاب ہیں۔انہی سے معلوم ہوتا ہے کی ان کی زندگی من جملہ دیگر تبتی باسیوں کی مانند دستی و فاقہ مستی سے عبارت تھی۔ اجرت پر دوسروں کی بھیڑ بکریاں چراکر گزر بسر کیا کرتے تھے۔عیں غربت میں بھی پندار دین و ایمان کا پاس ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ دوران طالب علمی میں ہی ہاتھ لگے سونے کو بھی دیانتداری سے لوٹاکر اپنے استاد کی نظر میں عزت و تکریم حاصل کر لی۔ رفعت کردار اور کمال علم و فن کی بنیاد پر راجاوں کے اتالیق بھی رہے مگر اپنی صلاحیتوں کا مان رکھنے میں اسد اللہ غالب کا سا مزاج رکھتے تھے۔ راجا علی شیر خان نے جب ادبی مباحثے میں سعدی شیرازی کے کسی فارسی شعر پر سید فضل شاہ اور بوا عباس میں تکرار پر مصلحتاً سید فضل شاہ کی تائید کی تھی۔ بوا عباس دوسری دن علی الصبح خپلو سے کوچ کر گئے۔ راجہ کی طرفسے بھیجے گئے آدمیوں کو جواب دیاکہ میں ایسے بے مروت اور بے قدرے راجہ کی صحبت میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوں جو ادبی بحث و مباحثے میں مصلحت کا شکار ہو کر سعدی شیرازی اور میری توہین کرنے پر آمادہ ہو۔ حیات و ممات کی کشمکش اور غربت و تنگدستی کے ان دنوں میں بھی انھیں فکر معاش کی بجائے علم و حکمت کی تلاش رہی۔ انھیں عربی اور فارسی زبان پر نہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ فارسی ادب کے بیحد دلدادہ تھے۔ علم و معرفت کی وجہ سے وسعت نظری ایسی حاصل تھی کی نہ صرف عیسائی مشن کے ساتھ انسپکٹر کے طور پر کام کیا بلکہ انجیل مقدس کا بلتی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔صوفیانہ طرز زندگی کی چھاپ ان کی شاعری اور ادب پر بھی بصد حسن و خوبی نظر آتی ہے۔ دیگر تمام نامی گرامی شاعروں کی مانند آپ بھی حضرت علیؑ کے سچے عاشق اور عقیدت مند تھے۔ ان شان میں لکھی بہت سے قصیدے فنی، تکنیکی بیان و معانی اور علم و عرفان کے اعتبار سے شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلتی شاعری میں آپ کے قصائد، مناقب اور حمد و نعت، تخیلاتی وسعتوں، ایمان و عقیدت کی چاشنی، علم و حکمت اور تشبیہات و تلمیہات کی خوبصورتی سے مزین ہیں۔دینی علوم کے ساتھ ساتھ جغرافیہ و فلسفہ اور سائنس پر نہ صرف دسترس رہتے تھے بلکہ ان کا اظہار اپنے اشعار میں کھل کر کیا کرتے تھے۔